اربوں کا ڈیجیٹل نگرانی منصوبہ، خیبرپختونخوا کے جنگلات محفوظ ہوں گے یا بجٹ اُڑ جائے گا؟

اربوں کا ڈیجیٹل نگرانی منصوبہ، خیبرپختونخوا کے جنگلات محفوظ ہوں گے یا بجٹ اُڑ جائے گا؟

خیبرپختونخوا حکومت نے 2 ارب 34 کروڑ روپے سے جنگلات کی نگرانی کے لیے جدید ترین ڈیجیٹل سرویلیئنس سسٹم کا منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا مقصد جنگلات کی غیر قانونی کٹائی، لکڑی کی اسمگلنگ، غیر قانونی شکار اور جنگلی حیات (وائلڈ لائف) کی نقل و حمل کی مؤثر روک تھام ہے، جبکہ جنگلات میں آگ لگنے کی بروقت آگاہی بھی اس منصوبے کا حصہ ہے۔ تاہم محکمہ جنگلات کے پاس آگ بجھانے کے لیے نہ تو تربیت یافتہ فورس موجود ہے اور نہ ہی اس کے آلات۔

جنگلاتی وسائل کو درپیش خطرات اب ایک سنگین ماحولیاتی چیلنج کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ 2022 سے 2025 تک جنگلات میں آگ لگنے کے 528 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن سے پندرہ ہزار سے زائد ایکڑ جنگلات کو نقصان پہنچا ہے۔ صرف رواں ماہ، یعنی 16 جون 2025 تک، آگ لگنے کے 64 واقعات رونما ہو چکے ہیں، جن میں جنوبی وزیرستان میں ایک، بونیر میں 6، بٹگرام میں 11، دیر لوئر میں 13، سوات میں 7، ایبٹ آباد میں 13، صوابی میں 4، باجوڑ میں ایک، ہری پور میں 5 اور کوہاٹ میں ایک واقعہ رپورٹ ہوا ہے۔

دستاویزات کے مطابق اس منصوبے میں عملے کی نگرانی کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں گے، جبکہ اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ہر چیک پوسٹ کیمروں کے ذریعے مانیٹر کی جائے گی، جس کا کنٹرول براہ راست پشاور میں ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس منصوبے سے بروقت آگ کا پتہ لگ جانے پر واقعی مؤثر کارروائی کی جا سکے گی؟

آزاد ڈیجیٹل کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق، اس منصوبے میں جنگلات کی اہم چیک پوسٹوں پر کلوز سرکٹ ٹیلی وژن (سی سی ٹی وی) کیمرے نصب کیے جائیں گے، تھرمل اور فائر فائٹنگ ڈرونز، آئی او ٹی (انٹرنیٹ آف تھنگز) سینسرز اور جنگلات کی جیوٹیگنگ کے ذریعے مسلسل نگرانی کی جائے گی۔ ایک سیٹلائٹ سے مربوط فاریسٹ آبزرویٹری پورٹل سے حالات کی مکمل آگاہی حاصل کی جائے گی۔ یہ نظام نگرانی کو صرف زمینی سطح تک محدود نہیں رکھے گا بلکہ فضائی اور سیٹلائٹ ذرائع کو بھی شامل کیا جائے گا۔

اس ڈیجیٹل نظام کی مؤثر عملداری کے لیے ایک مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچہ تشکیل دیا جا رہا ہے، جس کے تحت ایک پراجیکٹ مینجمنٹ اور انفراسٹرکچر یونٹ قائم کیا جائے گا جو ان تمام امور کی نگرانی کرے گا۔ جنگلات کی آگ کو کم سے کم کرنے اور کٹائی کو روکنے کے عمل کو مسلسل اپڈیٹ اور بہتر بنایا جائے گا۔ علاقائی سطح پر تین ریجنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز قائم کیے جائیں گے جبکہ ایک مرکزی سینٹر پشاور میں ہو گا۔ اس منصوبے کے لیے ایک پراجیکٹ ڈائریکٹر، چار آپریشن منیجرز، ایک جی آئی ایس منیجر، ایک ماہر فنانس و اکاؤنٹس، ایک جی آئی ایس اسسٹنٹ، چار آئی سی ٹی ایسوسی ایٹس اور انٹرنز تعینات کیے جائیں گے۔

جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی سے زمینی، فضائی اور ڈیجیٹل ذرائع سے مسلسل نگرانی کو یقینی بنایا جائے گا۔ ہر جنگلاتی علاقے کے لیے ایک فائر فائٹنگ ڈرون ہو گا جبکہ کل تین ڈرونز، چھ نگرانی کرنے والے ڈرونز، اور دو کومبو کٹس دستیاب ہوں گی۔ آگ کی روک تھام کے لیے لانگ رینج فائر ڈیٹیکشن کیمرے، وائلڈ لائف مانیٹرنگ کیمرے اور مربوط ڈرون فوٹیج استعمال کی جائے گی۔ اس نیٹ ورک میں پاورڈ سرورز، ویڈیو وال سسٹم، انٹرپرائز اسٹوریج اور جدید نیٹ ورک انفراسٹرکچر شامل ہوگا۔

ڈیٹا کی حفاظت اور بروقت رسائی کے لیے کلاؤڈ ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔ کلاؤڈ بیسڈ سسٹم اور ریئل ٹائم اسٹریمنگ کے ذریعے سی سی ٹی وی اور ڈرونز کی فوٹیجز دیکھی جا سکیں گی۔ یہ سسٹم ناردن فارسٹ ریجن ٹو (جس میں ہزارہ ریجن شامل ہے اور اس کا ہیڈکوارٹر ایبٹ آباد میں ہے) اور فارسٹ ریجن تھری (ملاکنڈ ریجن) میں نافذ کیا جائے گا۔ مزید برآں، 154 چیک پوسٹیں سولرائزڈ سی سی ٹی وی کیمروں سے لیس ہوں گی۔ وائلڈ لائف کیمرہ ٹریپس، الارم سنسر سسٹم، اور دھوئیں کی نشاندہی کرنے والے کیمرے بھی منصوبے کا حصہ ہیں۔

ٹیکنالوجی اور تحقیق کے اشتراک سے پیشگی انتباہی نظام (ارلی وارننگ سسٹم) کو مؤثر بنایا جا رہا ہے۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کی مدد سے جنگلات میں آگ کے خطرات کا نقشہ تیار کیا جائے گا جبکہ ناسا سیٹلائٹس سے ریئل ٹائم موسمیاتی ڈیٹا حاصل کیا جائے گا۔ اس سسٹم میں آٹومیشن، بیک اپ، مشین لرننگ، اور ڈیزاسٹر ریکوری جیسے جدید فیچرز شامل کیے جائیں گے۔

جنگلاتی مواد کی نقل و حرکت کو شفاف بنانے کے لیے ڈیجیٹل ای ٹیگنگ، موبائل ایپلی کیشنز اور ڈیجیٹل بک کیپنگ کا استعمال کیا جائے گا۔ کاربن فوٹو پروسیسنگ کے ذریعے عالمی معیار کے مطابق اقدامات کیے جائیں گے۔ منصوبے کے تحت عملے کی تربیت، کنسلٹنسی، اور جدید آلات کی ہینڈلنگ کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ مزید برآں، نو ڈبل کیبن فلیٹ گاڑیاں بھی خریدی جائیں گی تاکہ دور دراز علاقوں تک رسائی اور گشت ممکن بنایا جا سکے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ منصوبہ ماحولیاتی پائیداری کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہو گا۔

ریسکیو 1122 کے ذرائع کے مطابق، جنگلات میں آگ بجھانا ان کی باضابطہ ذمہ داری نہیں ہے، لیکن وہ اس عمل میں شریک ہوتے ہیں، جس سے نہ صرف وقت زیادہ لگتا ہے بلکہ وسائل پر بھی بوجھ پڑتا ہے۔ اب تک نہ ریسکیو عملے کو اس حوالے سے تربیت دی گئی ہے اور نہ ہی محکمہ جنگلات کے پاس تربیت یافتہ فورس یا ضروری سازوسامان موجود ہے۔

رابطہ کرنے پر محکمہ جنگلات کے ڈویژنل فاریسٹ آفیسر شہریار نے بتایا کہ جنگلات میں آگ بجھانا ایک پیچیدہ اور دشوار کام ہے، اور ان کے پاس نہ تو جدید ٹیکنالوجی ہے اور نہ ہی تربیت یافتہ عملہ۔ تاہم، آگ کی صورت میں فارسٹ عملہ دیگر محکموں کے ساتھ مل کر کارروائی کرتا ہے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *