مودی کا لاڈ لہ فاروق عبداللہ،نہ غیرت، نہ شرم ، کشمیر کے نام نہاد محافظ کی جعلی جدوجہد

مودی کا لاڈ لہ فاروق عبداللہ،نہ غیرت، نہ شرم ، کشمیر کے نام نہاد محافظ کی جعلی جدوجہد

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی سمجھے جانے والے نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ ایک بار پھر کشمیر کے نام پر سیاسی ڈرامہ رچانے لگے ہیں۔ نہ تو ان میں کوئی اصولی جرات نظر آتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی شرم، مگر پھر بھی وہ کشمیریوں کے حقوق کا چیمپئن بننے کا دکھاوا کرتے نہیں تھکتے۔

فاروق عبداللہ نے مرکزی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال نہ کیا گیا تو وہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔ تاہم مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ سب زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ ماضی میں بھی فاروق عبداللہ اور ان کی جماعت دہلی کی ہر پالیسی پر خاموش رہ کر اپنی سیاسی بقاء یقینی بناتے رہے ہیں۔

یہ خبر بھی پڑھیں :مودی حکومت کے دوران سوئس بینکوں میں بھارتی کالے دھن میں ہوشربا اضافہ

عوامی حلقوں میں فاروق عبداللہ پر شدید تنقید کی جا رہی ہے،کشمیریوں کا کہنا ہے کہ وہ بار بار ریاستی درجہ کی بحالی کے نعرے لگا کر عوام کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں، مگر دہلی کے اشاروں پر ناچنا کبھی نہیں چھوڑتے۔

ان کی جماعت نیشنل کانفرنس کا ماضی گواہ ہے کہ اقتدار کی لالچ میں انہوں نے ہمیشہ کشمیری عوام کے حقوق پر سودے بازی کی اور دہلی سرکار کی پالیسیوں کی توثیق کرتے رہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ فاروق عبداللہ کی یہ کھوکھلی بڑھکیں کشمیری عوام کو اب مزید بے وقوف نہیں بنا سکتیں، ان کے اندر نہ تو کوئی سیاسی دَم خم باقی رہا ہے اور نہ ہی کشمیریوں کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ۔.

یہ خبر بھی پڑھیں :بھارت عالمی سطع پر تنہائی کا شکار، بھارتی تجزیہ نگار نے مودی سرکار کو آئینہ دکھا دیا

یہی وجہ ہے کہ وہ صرف زبانی دھمکیوں اور نمائشی احتجاجوں کے ذریعے اپنی سیاست چمکانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں، جبکہ دہلی کی خوشنودی حاصل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

سیاسی ماہرین کے مطابق نریندر مودی اور فاروق عبداللہ کا رشتہ دہلی کے اقتدار کے ایوانوں میں چلا آرہا ایک پرانا کھیل ہے، جس میں عوام کا استحصال اور کشمیر کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کرنا ہی اصل مقصد رہا ہے۔

کشمیریوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نام نہاد قائدین نہ تو اُن کی آواز بن سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے حقوق کی جنگ لڑنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *