پنجاب یونیورسٹی نے مختلف تعلیمی پروگرامز کی فیسوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا گیا ہے، جس میں کچھ پروگرامز کی فیسیں 59 فیصد تک بڑھا دی گئی ہیں۔ اس فیصلے کے بعد طلبا اور والدین میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ نے بتایا ہے کہ فیسوں میں اضافے کی منظوری پنجاب یونیورسٹی سنڈیکیٹ نے دی ہے اور نئی فیسیں رواں ماہ سے لاگو ہو جائے گی۔ یہ اضافہ بیچلر اور ماسٹرز دونوں سطح کے متعدد تعلیمی پروگرامز پر لاگو کی گئی ہے۔
ایل ایل ایم پروگرام کی فیس میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے، جو گزشتہ سال کی نسبت 59 فیصد یعنی 7,825 روپے بڑھ گئی ہے۔ ڈی فارمیسی پروگرام کی فیس 18,000 روپے سے بڑھا کر 23,000 روپے کر دی گئی ہے، جو کہ 28 فیصد اضافہ بنتا ہے۔
دیگر پروگرامز میں بی ایس سی، بی کام، بی بی اے اور ایم بی اے شامل ہیں، جن کی فیسوں میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ ایل ایل بی کی فیس میں بھی 28 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ میڈیکل ڈپلومہ پروگرامز کی فیسیں 16 فیصد بڑھا دی گئی ہیں۔
ملک کی دیگر سرکاری یونیورسٹیوں میں بھی فیسوں میں اوسطاً 28 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس نے اعلیٰ تعلیم کو عام طالبعلم کی پہنچ سے دور کر دیا ہے۔
اس فیصلے پر طلبا یونینز اور تعلیمی حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ غریب اور متوسط طبقے کے طلبہ پر براہِ راست اثر انداز ہوگا۔
ایک طالبعلم رہنما کا کہنا ہے کہ’یہ ایک سرکاری یونیورسٹی ہے، کاروباری ادارہ نہیں۔ تعلیم کو عام آدمی کی پہنچ سے دور کرنا ناانصافی ہے‘۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے مہنگائی اور اخراجات میں اضافے کو فیسوں میں اضافے کی وجہ قرار دیا ہے، تاہم طلبا حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ مداخلت کرے اور اعلیٰ تعلیم کو ہر طبقے کے لیے قابلِ رسائی بنائے۔
یہ اضافہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ملک پہلے ہی شدید معاشی بحران کا شکار ہے، جس سے تعلیم کا خرچ اٹھانا بہت سے خاندانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔