بھارتی ’اپاچی ہیلی کاپٹرز‘ پاکستان کے مربوط دفاعی نظام کے سامنے بے اثر

بھارتی ’اپاچی ہیلی کاپٹرز‘ پاکستان کے مربوط دفاعی نظام کے سامنے بے اثر

دفاعی ماہرین اس دعوے کو مسترد کر رہے ہیں کہ بھارت کے ’اے ایچ۔64 ای‘ اپاچی ہیلی کاپٹرز پاکستان کے خلاف کوئی اسٹریٹجک برتری رکھتے ہیں۔ان ہیلی کاپٹرز کی خوفناک شہرت اور جنگی تاریخ کے باوجود، بھارت کے محدود اپاچی بیڑے اور پاکستان کے زبردست فضائی دفاعی نظام کی موجودگی انہیں ایک کمزور ہدف میں بدل دیتی ہے۔

دفاعی ماہرین کے مطابق بھارت کے دفاعی نظام میں اس وقت تقریباً 30 اپاچی ہیلی کاپٹرز شامل ہیں، تاہم ماہرین ’عملی طور پر محدود اور اسٹریٹجک لحاظ سے خاص طور پر ایک وسیع البنیاد ممکنہ پاک، بھارت جنگ کے تناظر میں، انہیں غیر مؤثر قرار دے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:آپریشن سندور میں ناکامی کے بعد بھارت کا 2000 کروڑ روپے کا ’فائر کنٹرول ریڈار‘ معاہدہ، دفاعی تیاری یا سیاسی مہم؟

پاکستان فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ  آفیسر کے مطابق ’صرف 30 اپاچی کسی ایسی جنگ کا پانسہ نہیں پلٹ سکتے جس کا میدانِ جنگ صحرا، میدانوں اور پہاڑوں پر مشتمل ہو‘۔

پاکستان کا مضبوط دفاعی حصار

پاکستانی فوج نے برسوں کی محنت سے ایک مضبوط اور کثیر الجہتی فضائی دفاعی نظام قائم کیا ہے۔ اس میں چینی ساختہ ’ایل وائی۔80 ‘ درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل ’ایف ایم 90 ‘، شارٹ رینج ڈیفنس (شوراڈز) یونٹس اور مقامی طور پر تیار کردہ انزا مینی پورٹیبل ایئر ڈیفنس سسٹمز’مینپیڈز‘ شامل ہیں، جو نچلی پرواز کرنے والے طیاروں خاص کر اپاچی جیسے ہیلی کاپٹر کے لیے خطرناک نو فلائی زون بناتے ہیں‘۔

دفاعی ماہرین کے مطابق ’اپاچی مؤثر ہونے کے لیے فضائی قبضے کے محتاج ہیں۔ لیکن پاکستان کا ریڈار سسٹم اور پاک فضائیہ کی فوری جوابی صلاحیت انہیں خاص طور پر ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد کے قریب ایسی آزاد کارروائی کی اجازت نہیں دیتے،۔

پاک فضائیہ کی برتری اور ابتدائی وارننگ کی صلاحیت

پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) کی طاقت میں چینی ’زیڈ کے۔ 03 ‘ اور سویڈش (ایری آئی) ایئر بورن وارننگ اینڈ کنٹرول سسٹمز ’اواکس‘ شامل ہیں، جو 24 گھنٹے فضائی نگرانی کو ممکن بناتے ہیں۔ اس سے نہ صرف اپاچی کی پرواز کا وقت سے پہلے پتہ چلایا جا سکتا ہے بلکہ بروقت دفاع یا انٹرسیپشن بھی ممکن ہے۔

جغرافیہ بھی بھارت کے خلاف

پاکستان کی سرحدی زمین، جس میں شہری علاقے، دریا اور جنگلات شامل ہیں، اپاچی کی نقل و حرکت کو محدود کرتے ہیں جبکہ اینٹی ہیلی کاپٹر ٹیموں کو گھات لگانے کا فائدہ دیتے ہیں۔ یہ علاقے اپاچی کے لیے خطرناک اور پاکستان کے دفاعی حربوں کے لیے سازگار ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان کے پاس اپنے ٹینک شکن ہیلی کاپٹر اور جدید اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل (اے ٹی جی ایم) سسٹمز موجود ہیں، جو اپاچی ہیلی کاپٹرز کو اپنے ہدف تک پہنچنے سے قبل ہی تباہ کر سکتے ہیں۔

الیکٹرک سسٹم میں کمزوری

اپاچی ہیلی کاپٹرز کی ایک بڑی کمزوری ان کا انحصار جدید الیکٹرانک سسٹمز پر ہے۔ پاکستانی الیکٹرانک وارفیئر (ای ڈبلیو) صلاحیتیں، جو مقامی تحقیق و ترقی اور شراکت داریوں سے تیار کی گئی ہیں، ان ہیلی کاپٹرز کے کمیونیکیشن، ٹارگٹنگ سسٹمز اور ڈیٹا لنکس کو جام یا متاثر کر سکتی ہیں۔

دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کا چند ہائی ٹیک پلیٹ فارمز پر انحصار، پاکستان کے ’ڈیفنس ان ڈیپتھ‘ اور موبائل یونٹس پر مبنی جنگی نظریے کے مقابلے میں کمزور پڑتا ہے۔ یہ نظریاتی عدم توازن اپاچی ہیلی کاپٹر جیسے سست رفتار اور مہنگے ہتھیاروں کو میدان جنگ میں بے اثر کر دیتا ہے۔

افغانستان سے حاصل شدہ سبق

اپاچی ہیلی کاپٹرز کی افغانستان میں کارکردگی بھی ایک سبق ہے۔ امریکی مشن کے دوران، 10 سے 12 اپاچی ہیلی کاپٹر آر پی جی اور چھوٹے ہتھیاروں کی فائرنگ سے تباہ ہوئے، جو ان کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔

اپاچی ہیلی کاپٹرز افغانستان جیسے کم ٹیکنالوجی والے میدان جنگ میں بھی جنگجوؤں کے حملوں سے بڑے پیمانے پر تباہ ہوئے۔ پاکستان جیسے جدید، ریڈار سے بھرپور اور مضبوط دفاعی نظام والے ماحول میں ان کی بقا کی امید کرنا حقیقت سے بہت دور ہے۔ یہاں اپاچی شکاری نہیں بلکہ نشانے پر موجود ایک کمزور ہدف ہے‘۔

جنگی بیانیے کی شدت کے باوجود، ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ صرف جدید ہتھیار رکھنے سے میدانِ جنگ نہیں جیتے جاتے، خاص طور پر جب ان کا سامنا ایک بہتر منظم، متحرک اور جامع دفاعی حکمت عملی سے ہو‘۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *