پاکستان میں دہشتگردوں کی دراندازی میں طالبان حکومت بڑی سہولت کار ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

پاکستان میں دہشتگردوں کی دراندازی میں طالبان حکومت بڑی سہولت کار ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے 25 نومبر کو سینیئر صحافیوں سے ملک کی مجموعی سلامتی، انسدادِ دہشتگردی اقدامات، بارڈر مینجمنٹ کے چیلنجز اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی، جس میں انسدادِ دہشتگردی کے حالیہ اعداد و شمار، افغانستان سے تعلقات، بھارت کے فوجی بیانات اور سوشل میڈیا پروپیگنڈا جیسے اہم موضوعات زیرِ بحث آئے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان نے افغانستان پر حملہ نہیں کیا، ہماری نظر میں کوئی گڈ اور بیڈ طالبان نہیں ہیں ، ڈی جی آئی ایس پی آر

ہفتہ کے روز سینیئر صحافیوں سے ہونے والی اس گفتگو کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ملک میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں میں گزشتہ ایک سال کے دوران نمایاں تیزی آئی ہے۔

انہوں نے فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کی کارروائیوں کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ 4 نومبر 2025 سے اب تک 4910 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے جا چکے ہیں جن میں 206 دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا۔ رواں سال مجموعی طور پر ملک بھر میں 67023 آئی بی اوز کیے گئے۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں 12857 جبکہ بلوچستان میں 53309 آپریشنز کیے گئے۔ پورے سال کے دوران 1873 دہشتگرد مارے گئے جن میں 136 افغانی شامل تھے۔

پاک افغان بارڈر چیلنجز برقرار

انہوں نے واضح کیا کہ ’بارڈر مینجمنٹ کے حوالے سے سیکیورٹی اداروں کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے جبکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں‘۔ ان کے مطابق پاک افغان سرحد پُرپیچ اور دشوار گزار پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔ صرف خیبر پختونخوا میں پاک افغان بارڈر 1229 کلومیٹر طویل ہے جس پر 20 کراسنگ پوائنٹس موجود ہیں اور کئی مقامات پر بارڈر پوسٹس کے درمیان فاصلہ 20 سے 25 کلومیٹر تک ہے۔

انہوں نے کہا کہ بارڈر فینس اس وقت تک مؤثر نہیں ہو سکتی جب تک اسے آبزرویشن اور فائر کور حاصل نہ ہو۔ اگر ہر دو سے 5 کلومیٹر کے بعد قلعہ بنایا جائے اور ڈرون سرویلنس مستقل کی جائے تو اس کے لیے بھاری وسائل درکار ہوں گے۔ پنجاب اور سندھ کے مقابلے میں خیبر پختونخوا کی سرحد کے دونوں اطراف ایسے منقسم گاؤں موجود ہیں جن کی وجہ سے آمد و رفت کو کنٹرول کرنا ایک بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:افغانستان کی شرائط معنی نہیں رکھتیں،دہشت گردی کاخاتمہ اہم ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

افغان طالبان کی دہشتگردوں کو مکمل سہولت کاری

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دنیا میں بارڈر مینجمنٹ ہمیشہ 2 ممالک مل کر کرتے ہیں، مگر افغانستان کے معاملے میں صورت حال مختلف ہے۔ ان کے مطابق افغان طالبان پاکستان میں داخل ہونے والے دہشتگردوں کی مکمل سہولت کاری کرتے ہیں اور سرحد سے متصل افغان علاقوں میں مؤثر انتظامی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر ہے، جس سے گورننس کے مسائل بڑھتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ افغان بارڈر ایریاز میں ایک مضبوط پولیٹیکل ٹیرر کرائم گٹھ جوڑ موجود ہے جسے ‘فتنہ آل خوارج’ کی جانب سے سہولت مل رہی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوال اٹھایا کہ اگر سرحد پار سے دہشتگرد داخل ہو رہے ہیں، یا غیر قانونی تجارت اور اسمگلنگ جاری ہے، تو اندرونِ ملک اس کو روکنے کی ذمہ داری کس کی بنتی ہے؟ انہوں نے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو اس گٹھ جوڑ کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ گاڑیاں بارہا خودکش حملوں میں استعمال ہو چکی ہیں۔

افغانستان میں دہشتگرد مراکز موجود

افغانستان سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا افغانستان کے ساتھ دوحہ معاہدے پر مؤقف واضح ہے کہ ‘افغان طالبان دہشتگردوں کی سہولت کاری بند کریں’۔ ان کے مطابق افغانستان میں اب بھی القاعدہ، داعش اور دیگر دہشتگرد گروہوں کے مراکز موجود ہیں جنہیں اسلحہ اور فنڈنگ فراہم کی جاتی ہے اور یہ تمام عناصر پاکستان کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ پاکستان نے افغان طالبان کی قیادت کے سامنے تمام ثبوت رکھ دیے ہیں جنہیں وہ رد نہیں کر سکتے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ افغان طالبان ایک قابلِ تصدیق میکانزم کے تحت معاہدہ کریں اور اگر یہ میکانزم کسی تھرڈ پارٹی کی نگرانی میں ہو تو پاکستان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ثالث ممالک بھی پاکستان کے مؤقف سے مکمل آگاہ ہیں۔

فتنہ الخوارج کے بارے میں افغان طالبان کے اس دعوے کو انہوں نے غیر منطقی قرار دیا کہ یہ عناصر پاکستانی ہیں اور ’مہمان‘ کے طور پر افغانستان میں مقیم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ پاکستانی شہری ہیں تو انہیں پاکستان کے حوالے کیا جائے تاکہ انہیں قانون کے مطابق نمٹا جا سکے۔ انہوں نے پوچھا: ‘یہ کیسے مہمان ہیں جو مسلح ہو کر پاکستان پر حملے کرتے ہیں؟’

ڈی جی آئی ایس پی آر نے’ایس آئی جی اے آر‘رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی افواج انخلا کے دوران 7.2 بلین ڈالرز کا فوجی ساز و سامان افغانستان چھوڑ گئیں جس کا بڑا حصہ اب دہشتگرد گروہوں کے ہاتھ میں ہے۔ ان کے مطابق طالبان رجیم نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ بن چکی ہے کیونکہ 2021 کے بعد افغانستان میں ریاست اور حکومت کے قیام کا عمل رک گیا اور عسکریت پسند گروہوں کو کھلی گنجائش مل گئی۔

انہوں نے کہا کہ کابل کا موجودہ سیٹ اپ افغان عوام کی نمائندگی نہیں کرتا کیونکہ اس میں تمام قومیتوں کی آواز شامل نہیں اور ملک کی 50 فیصد خواتین کی بھی کوئی نمائندگی موجود نہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کا مسئلہ افغان عوام کے ساتھ نہیں بلکہ طالبان رجیم کے طرزِ عمل کے ساتھ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ڈی جی آئی ایس پی آرکی 50 سینئر ترین صحافیوں سے طویل نشست،غزہ اور کشمیر پر دوٹوک موقف

افغان مہاجرین کی واپسی تیز

افغان مہاجرین کی وطن واپسی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 2024 میں 366,704 اور 2025 میں 971,604 افراد واپس بھیجے گئے، جبکہ صرف نومبر میں 239,574 افغان مہاجرین کی واپسی عمل میں آئی۔

بھارت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’ہندوستان میں خود فریبی کی سوچ رکھنے والی قیادت کی اجارہ داری ہے‘۔

انہوں نے انڈین آرمی چیف کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر سندور کے دوران دکھایا گیا ’ٹریلر‘ سات جہازوں کے نقصان، 26 تنصیبات پر حملے اور S-400 بیٹریوں کی تباہی کا حامل ہوتا تو ایسی فلم بھارت کے لیے ایک ’ہارر‘ فلم بن جاتی۔ ان کا کہنا تھا کہ بار بار جھوٹے بیانات بھارتی عوام کے غم و غصے کو کم کرنے کی ناکام کوشش ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ کوئی بھی ملک اگر افغان طالبان کو فوجی ساز و سامان فراہم کرے گا تو وہ براہ راست دہشتگرد گروہوں کے ہاتھ لگے گا۔

غیر ملکی نیٹ ورکس کا پاکستان مخالف پروپیگنڈا بے نقاب

سوشل میڈیا پروپیگنڈا پر گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ریاست پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف زہریلا بیانیہ بنانے والے زیادہ تر ’ایکس‘ اکاؤنٹس بیرونِ ملک سے چلائے جا رہے ہیں۔ ’پاکستان سے باہر بیٹھ کر یہاں کی سیاست میں زہر گھولنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ اکاؤنٹس ہر لمحہ پاکستان دشمن بیانیہ بنانے میں مصروف ہیں‘۔

دہشتگردی کے خلاف سیاسی اتفاقِ رائے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تمام حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ اس کا حل نیشنل ایکشن پلان میں ہے۔

بلوچستان میں اس پلان کے تحت ایک مربوط نظام قائم کیا گیا ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں ایسی ساخت کمزور ہے۔ بلوچستان میں ضلعی، ڈویژنل اور صوبائی سطح پر اسٹیرنگ، مانیٹرنگ اور عملدرآمد کمیٹیاں فعال ہیں اور صوبے کے 27 اضلاع کو پولیس کے دائرہ اختیار میں لایا جا چکا ہے جو صوبے کا 86 فیصد حصہ بنتا ہے۔

انہوں نے ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ کو دہشتگردی کی مالی معاونت کا اہم ذریعہ قرار دیا۔ کریک ڈاؤن سے قبل 20.5 ملین لیٹر یومیہ ڈیزل کی اسمگلنگ ہوتی تھی جو اب کم ہو کر 2.7 ملین لیٹر یومیہ رہ گئی ہے۔ اس رقم کا بڑا حصہ بی ایل اے اور ’بی وائی سی‘ جیسے گروہوں کو جاتا تھا۔

مزید پڑھیں:ڈی جی آئی ایس پی آر نےپاکستان میں دہشت گردی میں استعمال ہونے والے امریکی اسلحے کے ثبوت دکھا د ئیے

انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز اور صوبائی حکومت عوامی انگیجمنٹ کے ذریعے امن کے فروغ کی کوششیں تیز کر چکی ہیں، جہاں 140 روزانہ اور 4000 ماہانہ انگیجمنٹس کی جا رہی ہیں جس کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔

گفتگو کے اختتام پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کے لیے دہشتگردوں کی کسی بھی قسم کی تفریق قابلِ قبول نہیں۔ ‘ہمارے لئے اچھا دہشتگرد وہ ہے جو جہنم واصل ہو چکا ہو۔ ہم حق پر قائم ہیں اور حق ہمیشہ غالب آتا ہے۔’

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *