پاکستان تحریک انصاف کے مستعفی رہنما قاضی انور ایڈووکیٹ نے پارٹی کے اندرونی معاملات، قیادت کے طرزِ عمل اور اپنے ساتھ ہونے والے مبینہ ناروا سلوک پر کھل کر بات کرتے ہوئے کئی اہم انکشافات کیے ہیں۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی ہمیشہ میری عزت کرتے رہے ہیں اور آج بھی کرتے ہیں، تاہم زمینی حقائق یہ ہیں کہ پارٹی عملاً چند مخصوص شخصیات کے کنٹرول میں چلی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں پارٹی کے اہم فیصلے سلمان اکرم اور علیمہ بی بی کے ہاتھ میں ہیں، علیمہ بی بی کی ہدایت پرمیرے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کیا گیا اور یہاں تک کہ وزیراعلیٰ ہاؤس کو بھی میرے خلاف استعمال کیا گیا،ان کا کہنا تھا کہ ایسے افراد کو ان پر فوقیت دی گئی جن کا تحریک انصاف سے باضابطہ اور نظریاتی تعلق بھی نہیں تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سلمان اکرم کے واٹس ایپ کے ذریعے ایک پیغام آیا جس میں واضح کیا گیا کہ جو شخص ہدایات کے خلاف ووٹ دے گا اسے پارٹی کا غدار سمجھا جائے گا ان ہدایات میں خاص طور پر کہا گیا تھا کہ قاضی انور کو ووٹ نہ دیا جائے، اس سے پہلے کہ مجھے دھکے دے کر پارٹی سے نکالنے کی کوشش کی جاتی میں نے خود ہی مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔
قاضی انور نے علیمہ بی بی سے متعلق بھی اہم انکشافات کرتے ہوئے کہا کہ آج تک یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ علیمہ بی بی کومجھ سے کیا شکایت ہے؟انہوں نے بتایا کہ بشریٰ بی بی انہیں بھائی کہہ کر مخاطب کرتی تھیں اور وہ انہیں بہن سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بشریٰ بی بی ایک پرہیزگار خاتون ہیں اور میں تہجد کے وقت قرآن کی تلاوت کر کے پانی دم کر کے صبح انہیں پہنچایا کر تا تھا جس پر ممکن ہے علیمہ بی بی کو اعتراض رہا ہو۔
مالی معاملات پر بات کرتے ہوئے قاضی انور نے کہا کہ علی امین گنڈاپور نے میرے مشورے سے 25 کروڑ روپے منظور کیے جو بعد ازاں صوبے بھر کے بار ایسوسی ایشنز کے صدور میں تقسیم کیے گئے،انہوں نے انکشاف کیا کہ بانی پی ٹی آئی کے قانونی مقدمات کے لیے سلمان اکرم اور دیگر وکلا نے ابتدا میں فیس وصول کی جبکہ بعد میں علی امین نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کیسز کی فیس وہ خود ادا کریں گے۔
قاضی انور ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ان کے پارٹی چھوڑنے سے تحریک انصاف کو بظاہر کوئی بڑا نقصان نہیں ہوگا، تاہم پارٹی کے اندر جاری ہائی جیکنگ جیسے حالات اس کے مستقبل کے لیے سنگین سوالات ضرور کھڑے کرتے ہیں۔