وفاقی حکومت کی جانب سے اپنے ابتدائی 20 مہینوں کے دوران لیے جانے والے قرضوں کی تفصیلات سامنے آ گئی ہیں، جن کے مطابق اس عرصے میں مجموعی قرضوں میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق موجودہ حکومت کے ابتدائی 20 مہینوں، یعنی مارچ 2024 سے اکتوبر 2025 کے دوران وفاقی حکومت کے قرضوں میں مجموعی طور پر 12 ہزار 169 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ اس عرصے میں قرضوں میں ہونے والا یہ اضافہ ملکی مالیاتی صورتحال پر ایک بار پھر سوالیہ نشان بن گیا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دستاویزات کے مطابق مذکورہ 20 مہینوں کے دوران وفاقی حکومت کے مقامی قرضے میں 11 ہزار 300 ارب روپے کا اضافہ ہوا، جبکہ بیرونی قرضوں میں 869 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ قرضوں میں اس اضافے کے بعد اکتوبر 2025 تک وفاقی حکومت کا مجموعی قرضہ بڑھ کر 76 ہزار 979 ارب روپے تک پہنچ گیا، جبکہ فروری 2024 تک وفاقی حکومت کے مجموعی قرضے 64 ہزار 810 ارب روپے تھے۔
دستاویزات میں مزید بتایا گیا ہے کہ فروری 2024 تک مرکزی حکومت کا مقامی قرضہ 42 ہزار 675 ارب روپے تھا، جو اکتوبر 2025 تک بڑھ کر 53 ہزار 975 ارب روپے ہو گیا۔ اس طرح صرف مقامی قرضوں میں 11 ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافہ سامنے آیا ہے۔
اسی طرح فروری 2024 تک وفاقی حکومت کا بیرونی قرضہ 22 ہزار 134 ارب روپے تھا، جو اکتوبر 2025 تک بڑھ کر 23 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ مالی ماہرین کے مطابق بیرونی قرضوں میں اضافے کے باعث زرِ مبادلہ کے ذخائر، ادائیگیوں کے دباؤ اور مالیاتی نظم و ضبط پر مزید دباؤ بڑھنے کا خدشہ ہے۔
واضح رہے کہ قرضوں میں مسلسل اضافہ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے اور آئندہ بجٹ سازی، ترقیاتی اخراجات اور عوامی ریلیف کے منصوبوں پر اس کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ پائیدار معاشی حکمت عملی اور مالیاتی اصلاحات کے بغیر قرضوں کے بوجھ میں کمی ممکن نظر نہیں آتی۔