امریکا کے پالیسی ساز جریدے ’واشنگٹن ٹائمز‘ نے کہا ہے کہ ’واشنگٹن میں امریکی خارجہ پالیسی ایک غیر متوقع موڑ اختیار کر چکی ہے، جہاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں ’انڈیا فرسٹ‘ حکمت عملی بتدریج اختتام کی جانب بڑھتی دکھائی دیتی ہے، جبکہ پاکستان تیزی سے ایک اہم اسٹریٹجک شراکت دار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔
واشنگٹن ٹائمز نے پیر کو اپنے خصوصی مضمون میں لکھا ہے کہ ’جنوری کے اوائل تک پاکستان اور امریکا کے سفارتی و قومی سلامتی تعلقات خوشگوار نہیں تھے، اسلام آباد کو طالبان کے قریب، سیاسی طور پر غیر یقینی اور سفارتی طور پر محدود سمجھا جاتا تھا، اگرچہ سیلاب کے بعد معیشت میں بہتری اور جی ڈی پی میں اضافہ ہوا، تاہم پاکستان اب بھی بیرونی مالی معاونت پر انحصار کر رہا تھا، واشنگٹن میں تاثر تھا کہ پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت محدود ہے اور اس کے سیکیورٹی ادارے انسداد دہشتگردی کے وعدوں میں غیر مستقل رہے ہیں۔
واشنگٹن ٹائمز کے مطابق تجزیہ کاروں نے اس وقت خبردار کیا تھا کہ پاکستان کو گزشتہ دہائیوں کے شدید ترین قومی سلامتی چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے، تاہم 2025 کے اختتام تک صورت حال یکسر بدل گئی، پاکستان ایک الگ تھلگ ملک سے ایک فعال شراکت دار کے طور پر سامنے آیا اور چند ہی ماہ میں اس کی عالمی ساکھ میں نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی۔
واشنگٹن ٹائمز کے مطابق ابتدائی طور پر ٹرمپ انتظامیہ کے اندر پاکستان کو چین کے قریبی اتحادی کے طور پر تشویش کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، عمومی توقع یہ تھی کہ امریکا بھارت پر مزید انحصار کرے گا، کوآڈ کو مضبوط کرے گا اور اسلام آباد کو پس منظر میں دھکیل دے گا، تاہم اسی دوران بھارت کی اندرونی سیاست، اکثریتی رجحانات، شہری آزادیوں پر قدغنوں، عسکری کارکردگی اور سخت سفارتی رویے پر واشنگٹن میں سوالات اٹھنے لگے۔
امریکی جریدے نے لکھا ہے کہ سرد تعلقات کے پگھلنے کی پہلی واضح علامت خفیہ انسداد دہشتگردی تعاون کی صورت میں سامنے آئی، جس سے یہ پیغام ملا کہ پاکستان عملی اشتراک کے لیے تیار ہے، مارچ میں صدر ٹرمپ کی جانب سے ایک قومی خطاب میں پاکستان کی کوششوں کی کھلی تعریف نے واشنگٹن کے پالیسی حلقوں کو حیران کر دیا، یہ بیان طویل عرصے سے چلی آ رہی پالیسی کے بالکل برعکس تھا۔
امریکی جریدے کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے وہ اہلکار جو پہلے پاکستان کو غیر معتبر سمجھتے تھے، اب اسے جوابدہ، مفید اور لچکدار شراکت دار قرار دینے لگے، یوں تعاون اور اعتماد کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جس نے تعلقات کو غیر معمولی رفتار سے گہرا کر دیا۔
ایک فیصلہ کن موڑ مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مختصر مگر شدید تصادم کے بعد آیا، جہاں پاکستان کی عسکری کارکردگی نے واشنگٹن کو حیران کر دیا، اس تنازعے نے فوجی نظم و ضبط اور اسٹریٹجک صلاحیتوں کا ایسا مظاہرہ کیا جسے امریکا پہلے ممکن نہیں سمجھتا تھا، اس کے بعد پاکستان کو دوبارہ ایک سنجیدہ علاقائی طاقت کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا۔
جریدے کے مطابق اسی تناظر میں پاکستان کی فوجی جدید کاری نے بھی توجہ حاصل کی، مسلح افواج کے کمانڈ اسٹرکچر میں بڑی تبدیلیاں کی گئیں اور چیف آف ڈیفنس فورسز کا نیا عہدہ قائم کیا گیا، جو فیلڈ مارشل عاصم منیر کے پاس ہے، وہ بیک وقت آرمی چیف کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔
جریدے نے مزید لکھا کہ بھارت کی جانب سے ٹرمپ کی ثالثی پر سرد ردعمل اور پاکستان کی جانب سے شکریہ ادا کیے جانے نے بھی واشنگٹن میں تاثر بدلنے میں کردار ادا کیا، ٹرمپ کے قریبی حلقوں میں فیلڈ مارشل عاصم منیر ایک ابھرتی ہوئی اہم شخصیت کے طور پر سامنے آئے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ صدر کے ساتھ ان کی کیمسٹری غیر معمولی ہے۔
واشنگٹن ٹائمز کے مطابق فیلڈ مارشل عاصم منیر کی وائٹ ہاؤس میں دوپہر کے کھانے پر ملاقات پاکستان کی فوجی تاریخ میں ایک منفرد واقعہ قرار دی جا رہی ہے، اس ملاقات کے بعد پاکستان کے بارے میں امریکی بیانیہ شبہ اور احتیاط سے نکل کر دلچسپی اور تحسین میں بدل گیا، بعد ازاں ان کے سینٹرل کمانڈ ہیڈکوارٹرز کے دورے اور اعلیٰ عسکری قیادت سے ملاقاتوں نے اس شراکت داری کو مزید تقویت دی۔
2026 کے آغاز پر پاکستان صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا اور مشرق بعید کی ابھرتی ہوئی حکمت عملی کے مرکز کے قریب دکھائی دیتا ہے، ایران تک ایک ممکنہ سفارتی چینل، مشرق وسطیٰ کے معاملات میں کردار اور چین کے اثر و رسوخ کے توازن کے لیے پاکستان کو ایک اہم عنصر سمجھا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ واشنگٹن میں بھارت کے پہلے دور کا اختتام ہو چکا ہے، اگرچہ یہ صورت حال عارضی بھی ہو سکتی ہے، تاہم پاکستان کی جغرافیائی سیاسی اہمیت اب ناقابل تردید ہو چکی ہے، جس نے 2025 میں جنوبی ایشیا کے توازن اور امریکی پالیسی کو نئی شکل دے دی ہے۔