پشاور(تیمور خان)خیبر پختونخوا کے پرکشش سیاحتی مقام ایوبیہ میں ایک مخصوص کمپنی کو فائدہ پہنچانے کیلئے غیر قانونی طورپر نیشنل پارک کی اراضی کو چیئرلفٹ استعمال کیلئے دے دی گئی۔
محکمہ موسمیاتی تبدیلی، جنگلات، ماحولیات اور جنگلی حیات کی جانب سے گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو دینے کی ببجائے چیف کنزرویٹر فارسٹ نے ایم او یو پر دستخط کردئیے جبکہ قانون کے تحت نیشنل پارک کا انتظامی کنٹرول وائلڈ لائف کے پاس ہے، 58کنال اراضی جی ڈی اے کو دینے پر محکمہ وائلڈ لائف نے اعتراض کیا تو محکمہ فارسٹ کے چیف کنزرویٹر نے نیشنل پارک پر ہی سوالات اٹھا دئیے۔
ذرائع کے مطابق یوبیہ میں محکمہ فارسٹ اور جی ڈی اے کے مابین اراضی پر تنازع چل رہاتھا دونوں محکموں کی جانب سے یہ دعوی کیا جارہاتھا کہ یہ اراضی ان کی ملکیت ہے، اتھارٹی کے مطابق ایوبیہ میں چیئر لفٹ 1964سے چلے آرہی ہیں جس سے اچھی خاصی ریونیو جنریٹ ہورہی تھی تاہم 2019میں آسٹریا فرم نے چیئرلفٹ کو غیر معیاری قراردیدیا جس کے بعد سے وہاں پر نئے چیئر لفٹ تعمیر کرنے پر محکمہ فارسٹ اور اتھارٹی کے مابین اراضی پر تنازعہ پیدا ہوگیا۔
مذکورہ مقام پر سیاحوں کیلئے اسلام آباد ڈائینو ویلی کی طرز پر سہولیات بن رہی ہے لیکن چیئرلفٹ کو اب مزید وسعت دی گئی ہے جس پر محکمہ نے سوال اٹھایا کہ اتھارٹی جس جگہ پر چیئرلفٹ بنارہی ہے وہ نیشنل پارک کی جگہ ہے اور فارسٹ آرڈنینس کے تحت ایوبیہ نیشنل پارک کی اراضی 8ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے اور نیشنل پارک کسی بھی دوسرے مقاصد کیلئے استعمال نہیں ہوسکتا ہے۔
سابقہ حکومت نے حدودات کی تعین کیلئے کمیٹی بنائی لیکن نگران دور حکومت میں محکمہ اتھارٹی کے ساتھ اراضی دینے پر راضی ہوگیا کہ وہاں پر پکی تعمیرات نہیں ہوگی اور فارسٹ کے رولز کے تحت ہی تعمیرات ہوگی، اتھارٹی ذرائع کے مطابق محکمہ فارسٹ کی وجہ سے تاخیر ہوئی اور اس سے اتھارٹی کو 94کروڑ کا نقصان ہوگیا۔
کیونکہ جس کمپنی کو ٹھیکہ ملا ہے وہ پہلے سال 45کروڑ اور دو سال تک ہر سال بعد 10کروڑ روپے دیں گے اور ہر سال 9کروڑ60لاکھ روپے ہر سال الگ سے دینے ہیں لیکن تاخیر سے اب ایوبیہ میں چیئرلفٹ پر کام کا آغاز ہوگیااورگلیات ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے مطابق دس ماہ میں چیئرلفٹ فعال ہوجا ئے گا جبکہ دیگر تفریحی سہولیات چار سال میں مکمل ہوں گے جس سے ایک ہزار ملازمتیں تخلیق ہوگی اور پہلے مرحلے میں تین سو ملازمین کی تقرریاں بھی ہوگئی ہے۔
ذرائع کے مطابق رولز کے برعکس چیف کنزرویٹر یوسف خان نے58کنال اراضی کی ایم او یو اتھارٹی کے ساتھ دستخط کردی جو ان کا اختیار بھی نہیں ہے جس پر ایس ڈی ایف او محکمہ وائلڈ نے سیکرٹریٹ کو لیٹر ارسال کیا کہ یہ غیر قانونی ہے، رابطہ کرنے پر ایوبیہ نیشنل پارک محکمہ وائلڈ لائف کے ایس ڈی ایف او رضوان نے بتایا کہ نیشنل پارک رولز 2021کے سیکشن 4کے تحت نیشنل پارک کی منیجمنٹ کا اختیار ڈی ایف او وائلڈ لائف کے پاس ہوتا ہے اور ایم او یو کرنے کیلئے ایک طریقہ کار موجود ہے جس کو نظرانداز کیاگیاہے اب جدید طرز پر چیئرلفٹ تعمیر کی جارہی ہے باڑ لگانے سے جانوروں کی امدورفت متاثر ہوگی۔
پول لگانے سے پرندوں کو مشکلات ہوگی اور اس میں درخت بھی کاٹے جائیں گے، اس مقام کو 1984میں نیچر کے تحفظ کیلئے نوٹیفائی کیاگیا ہے، ذرائع کے مطابق محکمہ فارسٹ کے رولزآف بزنس 1985کے سیکشن 13کے مطابق ایم او یو ایک فرد(ملازم) نہیں بلکہ محکمہ کرسکتا ہے لیکن یہاں پرہزارہ ڈویژن کے چیف کنزرویٹر فارسٹ یوسف خان نے ایم او یو اتھارٹی کے ساتھ دستخط کی ہے۔
اس بابت چیف کنزرویٹر نے ایوبیہ کو نیشنل پارک نوٹیفائی کرنے پر سوالات اٹھائے کہ نیشنل پارک کیلئے فیزیبلٹی سٹیڈی کرنا ضروری ہے جبکہ ایوبیہ تو سب سے زیادہ شور والا علاقہ ہے جہاں پر سڑکیں، ہوٹلز،گھر و دیگر تعمیرات پہلے سے موجود ہے تو کس طرح اس کو نیشنل پارک نوٹیفائی کیا جاسکتا ہے بہت سے نیشنل پارکوں میں سیاحوں کیلئے واکنگ ٹریکس موجود ہے۔