10 سالہ اقتدار، خیبر پختونخوا میں تعلیمی ایمرجنسی سکولوں کی حالت زار نہ بدل سکی

10 سالہ اقتدار، خیبر پختونخوا میں تعلیمی ایمرجنسی سکولوں کی حالت زار نہ بدل سکی

عارف خان

نت نئے تجربات اور تعلیم کے لئے سب سے زیادہ بجٹ مختص کرنے کے باوجود بھی خیبر پختونخوا میں تبدیلی کے دعوے محض دعوے ہی ثابت ہوئے، صوبے میں دس سالہ دور اقتدار میں تعلیمی ایمرجنسی کے نعرے اور اقدامات بھی سکولوں کی حالت زار کو بہتر نہ بنا سکے، ایجوکیشن مانیٹرنگ اتھارٹی، سکول لیڈرز سمیت دیگر منصوبے جو کہ اساتذہ کی مانیٹرنگ سے لیکر طلبہ کی کارکردگی جانچنے کے لئے شروع کئے جانے منصوبے بھی بہتری نہ لا سکے، تاہم اب محکمہ ابتدائی وثانوی تعلیم خیبر پختونخوا نے صوبے بھر میں بعض سرکاری سکولوں کو پرائیوٹائز کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے،تجرباتی بنیادوں پر صوبے کے بعض اضلاع میں سکولوں کو پرائیوٹائز کیا جائے گا، صوبے میں نئے بننے والے پرائمری سکولوں کو پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت پر پرائیوٹائز کیا جائے گا۔

 

سکولوں کے اخراجات پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت ادا کئے جائیں گے،پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت ایک بچے پر آنے والے اخراجات صوبائی حکومت ادا کرے گی۔ ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا کے تیس نئے بننے والے سکول ایسے ہیں جن کو پبلک پروائیوٹ پارٹنر شپ پر دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، محکمہ تعلیم کی جانب سے سکولوں کی نشاندہی کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے، پرائیویٹ پارٹنرز کو ہر اسکول میں کم از کم 180سے 240طلبا کو داخل کرنے کی شرط رکھی گئی ہے جبکہ ایک کلاس میں کم از کم30سے40 طالب علموں کو انرول کیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق سرکاری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ایک بچے پر ابھی تقریباً4700روپے خرچہ آتاتاہم پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت ہونے والے معاہدہ کی صورت میں فی طالب علم چار ہزار روپے تک ادا کئے جائیں گے، پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ پر شروع کئے جانے والے سکولوں میں ٹیچرز کی بھرتیوں کااختیار بھی مذکورہ فرم کے پاس ہوگا جن کو کنٹریکٹ ایوارڈ کیا گیا ہو، صوبائی حکومت کی جانب سے کتابیں، فرنیچر، کلاس فور اور سکولوں کی مرمت و بحالی کی ذمہ داری محکمہ تعلیم کی ہو گی، تاہم کنٹریکٹ لینے والے فرم کے لئے سکولوں سے متعلق پانچ انڈیکٹر بھی رکھے گئے ہیں جس کی بنیا د پر سکولوں کی کارکردگی کو دیکھا جائے گا۔

 

 

ذرائع کے مطابق مذکورہ انڈیکٹر کے مطابق ہر کلاس کے لئے اپنے سٹینڈرڈ متعارف کرائے جائیں گے، اس کے ساتھ ساتھ سکولوں میں پڑھائی کے معیار،، سکول کی گورننس اور برابری کی بنیاد پر تمام بچوں کو یکساں تعلیم کی فراہمی شامل ہے ۔ذرائع کے مطابق پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت سکولوں کو پرائیوٹائز کرنے کا مقصد خیبر پختونخوا کے سکولوں میں تدریسی وسائل کی کمی، تعلیمی مواد کی کمی اور ناقص انفراسٹرکچر جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس سے قبل محکمہ تعلیم کی جانب سے 180سکولوں کو پرائیوٹائز کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس میں ہائی اور ہائیرسیکنڈری سکول بھی شامل تھے تاہم ا ب محکمہ تعلیم کی جانب سے صرف تیس سکولوں کوپرائیوٹائز کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور سالانہ ترقیاتی پروگرام میں مذکورہ منصوبے کوبھی شامل کیا گیا ہے۔ابتدائی طور پر پرائمری سکولوں کو پرائیوٹائز کیا جائے گا اور منصوبہ کامیاب ہونے کی صورت میں پورے صوبے میں بعض خراب کارکردگی والے سکولوں کو پرائیوٹائز کیا جائے گا۔

 

منصوبے سے متعلق ٹیچرز ایوسی ایشن کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے اس سلسلے میں سکول افیسر ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر سمیع اللہ خان کا کہنا تھا کہ ایسوی ایشن پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے حق میں نہیں ہیں، پہلے سے موجود سسٹم ہے اس کو مزید وسعت دی جائے، اگر کہی پر کمی کا سامنا ہے اس کو پورا کیا جائے،مذکورہ حکومت سکولوں کو پرائیوٹائزیشن کی طرف بڑھ رہی ہے حالانکہ ایجوکیشن اور صحت کے شعبے ریاست کی زمہ داری ہے، جس میں نقصان اور فائدہ کا نہیں سوچا جاتا بلکہ ریاست تمام شہریوں کو تعلیم اور صحت کی سہولیات دینے کی ذمہ دار ہے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *