ماہرین کا کہنا ہے کہ نیوکلئیر پاورپلانٹس سے حاصل ہونے والی بجلی دوسرے ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی کے مقابلے کم قیمت، ماحول دوست، بہتر دستیابی اور محفوظ ترین ہوتی ہے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ماہر معاشیات نجیب خاقان نے کہا ہے کہ ہم توانائی کے سیکٹر میں ناکام رہے ہیں، ہم نے ایسے فیصلے کیے جس کی وجہ سے آج بجلی کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ ہوچکا ہے۔ بجلی اور گیس سیکٹر میں ہمارا گردشی قرضہ بھی انتہائی بڑھ چکا ہے۔ ہمیں اب توانائی سیکٹر کو ری ڈیزائن کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک انرجی ریگولیٹر چاہئے جو پورے پاکستان کی انرجی کو ریگولیٹ کرے۔ نیپرا، اوگرا کو ہم علیحدہ رکھیں۔ ہمیں پرائیویٹ سیکٹر آپریشنز چاہئیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں توانائی کی پیداواری لاگت کو کم کرنا ہے۔اس وقت 6نیوکلئیر پاورپلانٹس سے حاصل ہونیوالی بجلی کی اوسط پیداواری قیمت 14روپے 86 پیسے فی یونٹ ہے۔ان پاورپلانٹ کی لائف 80سال آگے جاسکتی ہے۔ ان پاورپلانٹس کو ایک بار فیول کر دیں تو یہ 14سے18ماہ چک سکتے ہیں۔یہ پاور پلانٹس ماحول دوست بھی ہیں۔ میں پچھلے 5سال سے کہہ رہا ہوں موسم سرما میں ہمیں بجلی کے ٹیرف پر کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بجلی کی پیداوار ضرورت سے بہت کم ہوتی ہے لیکن آج تک ہم یہ سادہ کام بھی نہیں کر پائے۔دوسرا 18فیصد ٹیکسز کا اجرا 6ماہ کیلئے موخر کر دیجیے، اس سے بجلی سستی ہوگی اور کھپت بڑھے گی اور لاگت کم ہوگی۔ تیسرا تھرکول ہمارا فیول سپلائی کرے تو بجلی کی قیمت میں 2روپے فی یونٹ کمی ہوسکتی ہےاور اگر چوتھا کام کرلیں کہ موسم سرما میں گھریلو صارفین کیلئے گیس بند کردیں اور اس گیس کو پاور پلانٹس کو دیدیں اور صارفین کو بجلی سستی مہیا کر دیں ۔
ماہر جوہری امور سید محمد علی نے بتایا کہ نیوکلئیر انرجی نہ صرف کم قیمت ہےبلکہ اس کی دستیابی بہتر ہے ،ماحول دوست بھی ہےاورزیادہ محفوظ ہے ۔ہمارانیشنل انرجی ویژن 2050جو 2011میں سامنے آیا تھااس کے تحت ہم اگلے 25سال میں10کالا باغ ڈیمز کے برابر بجلی کم قیمت، ماحول دوست اور محفوظ انداز میں حاصل کر سکتے ہیں۔ کالاباغ ڈیم ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے۔ ہم نیشنل انرجی ویژن کے تحت2050تک 42ہزار میگاواٹ ایٹمی توانائی پیدا کرنے کا ہدف رکھتے ہیں۔ہمارے انجینئرز اور سائنسدان اس کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ سارا سال دستیاب رہتی ہے۔ جو ایندھن ایٹمی بجلی گھر میں استعمال ہوتا ہے وہ 18ماہ تک وہیں موجود رہتا ہے۔ ایٹمی پاورپلانٹس سے حاصل ہونیوالی بجلی پر عالمی سطح پر تیل قیمتوں مین اتار چڑھائو بھی اثر اانداز نہیں ہوتا۔انہوںنے مزید بتایا کہ ایٹمی ری ایکٹر کو بنانے میں یقینی طور پر چند سال لگتے ہیں لیکن اس کا لائف سپین بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تھرمل بجلی کے مقابلے اس کی پیداوار ی لاگت کم ہوتی ہے لیکن اصل فائدہ ہے کہ یہ مسلسل کام کرتے ہیں۔ پانی کی دستیابی اور تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھائو جیسے عوام اس پر اثر انداز نہیں ہوتے۔اس کے علاوہ یہ کاربن ریلیز کرنے کے حوالے سے بھی انتہائی ماحول دوست ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ایٹمی بجلی گھر بنانے میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے لاگت بھی زیادہ ہوتی ہے تاہم دیکھا یہ جائے کہ نیوکلئیر ری ایکٹر اگلے 50/60سال کتنی قیمت پراورکتنے محفوظ انداز میں بجلی پیدا کرتا ہے۔اس وقت دنیا میں31ممالک میں 415ایٹمی بجلی گھر کام کر رہے ہیں اور ابھی بھی 61نئے بجلی گھر لگائے جارہے ہیں تو ہمیں بھی چاہئے کہ ہم صلاحیت رکھتے ہیں تو ہم بھی نیوکلئیر انرجی کی طرف جائیں اور اپنے مسائل کو حل کریں۔
اکنامک ریسرچر عافیہ ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان نے 1965میں نیوکلئیر پاور پلانٹ پر کام شروع کیا تھا اور 1972سے ہم اس سے کام لے رہے ہیںاور اب تک ہم 6نیوکلئیر پاورپلانٹس لگا چکے ہیں۔ پاکستان کے پاس کیپسٹی بہت زیادہ ہے۔یہ ماحول دوست بھی ہے اور Economical بھی ہے۔سولر اور ہوا سے پیدا ہونیوالی بجلی کی پیداوار متاثر ہوتی رہتی ہے اسی طرح پانی سے بجلی پیدا کرنے کا انحصار پانی کے بہائو اور دستیابی پر ہوتا ہے لیکن نیوکلئیر پاورپلانٹس کیساتھ اس طرح کے ایشوز نہیں ہوتے اور جب پاکستان کے پاس اس کی صلاحیت بھی ہے ،تو ہمیں اپنے توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے نیوکلئیر پاورپلانٹس پر انحصار کرنا پڑے گا اورابھی بھی کر رہے ہیں۔کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ سردیوں میں جب باقی پاور پلانٹس فعال نہیں ہوتے تو نیوکلئیر انرجی پر انحصار زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ لیکن ہمیں مستقبل میں ان پاور پلانٹس پر مزید فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔ بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ہم نیوکلئیر انرجی کے صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں تو بجلی کی پیداواری قیمت میں بڑی کمی ہوسکتی ہے۔تاہم بجلی کے بلوں پر فرق کی بات کی جائے تو ہمارے بلوں میں Inefficiency Costبہت زیادہ ہےاور ٹیکسز کا معاملہ بھی الگ ہے۔ہمیںفوری ریلیف کیلئے ٹیکسز کو کم کرنے کیلئے کوئی اقدامات کرنے ہوں گے بجلی کے بلوں میں ریلیف اسی صورت ممکن ہے۔