پشاور میں ڈبل شفٹ سکول پروگرام میں لاکھوں روپے خرد برد کا انکشاف ہوا ہے اور سکولز میں طلبہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر اور صرف تنخواہوں کی وصولی کے لیے یہ پروگرام چلایا جا رہا ہے۔
انکوائری رپورٹ کے مطابق پشاور کے بیشتر سکولوں میں ڈبل شفٹ کی ضرورت نہ ہونے کے باوجود اب تک مذکورہ سکولوں کو چلایا جا رہا ہے اور اضافی تنخواہیں وصول کی جارہی ہیں۔پشاور میں سب ڈویژنل ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس کے ٹاون ون، ٹو، تھری اور فور میں پالیسی کے برعکس اساتذہ کو اضافی تنخواہیں ادا کرکے خزانے پر اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے۔ بیشتر ڈبل شفٹ سکولوں میں طلبہ کی تعداد نہ ہونے کے باوجود صرف تنخواہوں کی وصولی کے لئے پروگرام چلایا جا رہا ہے، پشاور کے ڈبل شفٹ سکولوں میں بے قاعدگیوں اور خردبرد سے متعلق انکوائری کمیٹی نے رپورٹ محکمہ تعلیم کو پیش کر دی ہے۔
مزید پڑھیں: عدلیہ پر حملے کے خلاف جمعرات کو احتجاج اور ہفتے کو راولپنڈی میں جلسہ کریں گے : بانی پی ٹی آئی
معاملہ کی تحقیقات کے لئے دو رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی تھی، جس میں پرنسپل گورنمنٹ ٹیکنیکل ہائیر سیکنڈری سکول گلبہارپرویز مروت اور ممرز خان وائس پرنسپل گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول نمبر دو پشاورکو انکوائری آفیسر مقرر کیا گیا تھا۔رپورٹ کے مطابق دوکروڑ36لاکھ64ہزار روپے سب ڈویژنل ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس ٹاون ون، ٹاون ٹو، ٹاون تھری اور ٹاون فور کو ڈبل شفٹ کی مد میں فراہم کئے گئے تھے، 26جنوری 2022کو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے ڈبل شفٹ سکولوں میں اساتذہ کو تعینات کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔رپورٹ کے مطابق سب ڈویژنل ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس ٹاون ون نے دسمبر 2021سے مئی2022تک تنخواہ کی مناسبت سے13لاکھ11ہزار روپے ادا کئے، تاہم مذکورہ اساتذہ کو ڈبل شفٹ پالیسی کے برعکس 7لاکھ44ہزار روپے اضافی ادا کئے گئے،
اسی طرح ٹاون ٹو نے 22سکولوں کے پرائمری اور ہیڈ ٹیچرز کو اسی مدت کے دوران 22ہزار ماہانہ تنخواہ کے حساب سے 48لاکھ88ہزار روپے ادا کئے تاہم مذکورہ اساتذہ کو بھی پالیسی کے برعکس 20لاکھ29ہزار روپے اضافی ادا کئے گئے، اسی طرح سب ڈویژنل ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس ٹاون تھری کی جانب سے پشاور کے 22سکولوں میں ڈبل شفٹ پروگرام کے تحت ماہانہ تنخواہوں کی مد میں 15لاکھ روپے ادا کئے گئے جن میں پالیسی کے خلاف 5لاکھ21ہزار روپے اضافی ادا کئے گئے جبکہ ٹاون فور کی جانب سے بھی دس سکولوں کے اساتذہ کو 5لاکھ28ہزار روپے اضافی ادا کئے گئے۔ تاہم مجموعی طور پر 35لاکھ سے زائد رقم تنخواہوں کی مد میں خرد برد کئے گئے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کے 10 بڑے شہروں کے لیے ڈینگی الرٹ جاری
انکوائری رپورٹ کے مطابق پشاور کے بیشتر سکولوں میں ڈبل شفٹ کی ضرورت نہ ہونے کے باوجود اب تک مذکورہ سکولوں کو چلایا جا رہا ہے اور اضافی تنخواہیں وصول کی جارہی ہیں،بیشتر سکولوں کو صرف اس لئے چلایا جا رہا ہے تاکہ اس سے تنخواہیں وصول کی جا سکیں،رپورٹ کے مطابق سب ڈویژنل ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افس ٹاون ٹو میں 22سکولوں میں سے 18سکولوں میں ڈبل شفٹ پروگرام ختم کیا گیا ہے تاہم چار سکولوں میں سے بھی تین سکولوں میں ڈبل شفٹ پروگرام کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مارننگ شفٹ میں مذکورہ سکولوں میں اتنی جگہ ہے کہ ڈبل شفٹ پروگرام کے طلبہ کو ایڈجسٹ کیا جا سکے،رپورٹ کے مطابق گورنمنٹ پرائمری سکول بشیر آباد میں ڈبل شفٹ سکول کے بچوں کو مارننگ شفٹ میں پڑھایا جا رہا ہے اور تنخواہیں ڈبل شفٹ پروگرام کی وصول کی جارہی ہیں۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے فوجی عدالت میں ممکنہ ٹرائل کیخلاف درخواست نمٹا دی
ریکارڈ میں بچوں کی تعداد64بتائی گئی ہے تاہم اصل میں بچوں کی تعداد40 سے بھی کم ہے، کچھ سکول ایسے بھی ہیں جہاں اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے اور جہاں مزید اساتذہ کو تعینات کرنے کی ضرورت ہے مگراس کے باوجود ان سکولوں میں ایک یا پھر دو اساتذہ کو تعینات کیا گیا ہے ،اسی طرح ٹاون ون میں 13ڈبل شفٹ سکولوں میں سے تین سکول بند ہیں اور باقی میں ڈبل شفٹ پروگرام شروع ہے تاہم مذکورہ سکولوں میں سے بیشتر سکولوں کے ہیڈ ٹیچرز نے بھی ڈبل شفٹ میں طلبہ کی تعداد کم ہونے کے باعث انھین مارننگ شفٹ میں ایڈجسٹ کرنے کی سفارش کی ہے کمیٹی رپورٹ کے مطابق گورنمنٹ پرائمری سکول دلہ زار کالونی میں بھی طلبہ کی تعداد 62 بتائی گی ہے تاہم انکوائری رپورٹ کے مطابق سکول کا دورہ کرنے پر پتہ چلا کہ سکول میں طلبہ کی تعداد صرف22ہے، تاہم مذکورہ ڈبل شفٹ سکول کو بند کرکے بچوں کو قریبی سکول میں ایڈجسٹ کرنے کی سفارش کی گئی ہے، ٹاون تھری میں بھی دس ڈبل شفٹ سکولوں میں تین بند ہیں جبکہ باقی سکولوں کے ہیڈ ٹیچرز نے بھی ڈبل شفٹ پروگرام میں طلبہ کی تعداد کم ہونے کے باعث انھیں مارننگ شفٹ میں ایڈجسٹ کرنے کی سفارش کی ہے۔
مزید پڑھیں: آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی منظوری دیدی
انکوائری رپورٹ میں انکوائری رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ پشاور کے ڈبل شفٹ پالیسی کے مطابق جن اساتذہ کو 12ہزار کے بجائے 22ہزارادا کی گئی ہے ان سے فوری طور پر ریکوری کی جائے، اسی طرح ریٹائرڈ اور ترقی پانے والے اساتذہ کو بھی فوری طور پر اضافی رقم واپس کرنے کی ہدایت کی جائے۔انکوائری کمیٹی کی جانب سے سفارش کی گئی ہے کہ ڈبل شفٹ پروگرام کی پورے صوبے میں تحقیقات کرائی جائیں، کمیٹی کی جانب سے یہ بھی اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ بوائر ڈبل شفٹ سکولوں میں لڑکیوں کو داخل کرانے کی اجازت کس سے لی گئی تھی، کیونکہ لڑکیوں کے لئے الگ ڈبل شفٹ سکول شروع کیا گیا ہے۔کمیٹی کی جانب سے سفارش کی گئی ہے کہ گورنمنٹ پرائمری سکول لطیف آباد جس میں لڑکیوں کی تعداد95فیصد تک ہے تاہم مذکورہ سکول میں خواتین اساتذہ کو تعینات کیا جائے۔

