امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگی آگ نے تین دن بعد بھی بے قابو رہتے ہوئے وسیع پیمانے پر تباہی مچادی ہے۔ آگ کے نتیجے میں دو ہزار سے زائد گھر اور ہزاروں دیگر عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہیں، جبکہ متاثرین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے۔
بحر الکاہل کے ساحل سے پاساڈینا تک پھیلنے والی آگ نے ایک لاکھ 80 ہزار سے زائد افراد کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔ موجودہ تخمینے کے مطابق آگ سے ہونے والا مالی نقصان 150 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جو پہلے اندازے سے کہیں زیادہ ہے۔ نجی کمپنی ’ایکو ویدر‘ نے اس نقصان کا تخمینہ لگاتے ہوئے خبردار کیا کہ حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ البرٹو کاروالہو نے اعلان کیا ہے کہ آگ کے باعث تمام لاس اینجلس یونیفائیڈ اسکول اور دفاتر بند رہیں گے، جبکہ ضلع کے دو پرائمری اسکول مکمل طور پر تباہ اور ایک ہائی اسکول شدید متاثر ہوا ہے۔ اسکولوں کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم نے ویسٹ ہلز اور کالاباساس کے علاقوں میں تیزی سے پھیلتی آگ پر قابو پانے کے لیے مزید 900 فائر فائٹرز کی تعیناتی کا اعلان کیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے متاثرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ان کی مدد کے لیے پرعزم ہے۔ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور گورنر گیون نیوزوم کے درمیان جنگلات کی دیکھ بھال اور آگ کے انتظام پر اختلافات مزید شدت اختیار کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے حالیہ بیان میں آگ کے لیے گورنر کو ذمہ دار ٹھہرایا، جس سے حالات سیاسی طور پر بھی پیچیدہ ہو گئے ہیں۔
لاس اینجلس کی تاریخ کی اس بدترین آفت سے متاثرہ افراد کی مدد اور بحالی کا عمل ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔