190 ملین پائونڈ کیس سے متعلق زاہد گشکوری کے تہلکہ خیز انکشافات

190 ملین پائونڈ کیس سے متعلق زاہد گشکوری کے تہلکہ خیز انکشافات

زاہد گشکوری نے 190ملین پائوند کیس سے متعلق مزید تہلکہ خیز انکشافات کر دیے۔

صحافی زاہد گشکوری نے اپنے وی لاگ میں کہا کہ 190ملین پائونڈ کیس فیصلے میں مزید انکشافات سامنے آئے ہیں۔ اس کیس میں سب سے بڑی سٹوری بنی گالہ میں 190ملین پائونڈ کی ڈیل کی ہے۔ اس وقت عمران خان وزیراعظم تھے اور ان کا کیمپ آفس بنی گالہ میں تھا۔

زاہد گشکوری نے کہاکہ جیسے ہی عمران خان کی حکومت 2018میں تو بیرون ملک پاکستانیوں کے اثاثوں کی ریکوری کیلئے یونٹ بنایا گیا جس کی سربراہی مرزا شہزاد اکبر کر رہےتھےجبکہ بیرسٹر ضیا المصطفیٰ نسیم ان کے نائب تھے۔ اس یونٹ نےبرطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے دفتر کو خط لکھا کہ پاناما کیس میں جس ہائیڈ پارک لندن میں پراپرٹی کا ذکر آیا ہے اس کی پروسیڈ اور ڈیلنگ کی تفصیلات پاکستان کیساتھ شئیر کی جائیں۔

صحافی کے مطابق نیشنل کرائم ایجنسی نے پاکستان سے یہ بھی تفصیلات مانگیں کہ این سی اے کی جانب سے ملک ریاض اور بحریہ ٹائون کیخلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات کی جارہی ہیں، اس پر پاکستان ریکارڈ فراہم کرے اور تعاون کرے کیونکہ یہ پاکستان کا پیسہ لگتا ہے۔اس پر پاکستان کے ’ایسٹ ریکوری یونٹ ‘نے غلط بیانی کی اور کہاکہ ملک ریاض یا بحریہ ٹائون کیخلاف کوئی پروسیڈنگز نہیںہیں ، جس پر این سی اے نے ملک ریاض کیساتھ ڈیل کر لی اور کیس آگے نہیں بڑھا۔این سی اے نے پاکستان کو لکھا کہ 190ملین پائونڈ جو کہ تین مختلف بینک اکائونٹس کو فریز کیا گیا تھاان میں موجود ہے اور وہ پاکستان کو آنا ہے۔اس پر عمران خان کی حکومت 6نومبر 2019کواین سی اے کیساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر تی ہے ،جس میں پاکستان کی جانب سے دستخطی شہزاد اکبر ہوتے ہیںاور دوسرے دستخطی بیرسٹر ضاالمصطفیٰ نسیم ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے بعد7نومبر 2019کو بنی گالہ میں رات ساڑھے 9بجے ایک میٹنگ ہوتی ہے۔ بنی گالہ میں تین پولیس افسرا ن ڈیوٹی پر تعینات تھے اور ہر ملاقاتی کا ریکارڈ موجود ہے ، ریکارڈ کے مطابق ساڑھے 9بجے ملک ریاض حسین نے بنی گالہ میںاس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی جبکہ شہزد اکبر بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔مرزا شہزا اکبر مختصر میٹنگ کے بعد 9بج کر45منٹ اور ملک ریاض 10بجے واپس چلے جاتے ہیں۔

زاہد گشکوری کے مطابق اس کے بعد 3دسمبر 2019کو ایک سیل دستاویز کوکابینہ میٹنگ میں پیش کر دیا جاتا ہے ، مرزا شہزاد اکبر نے کابینہ کو بتایا کہ یہ این سی اے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے درمیان معاہدہ کی دستاویز ہے جس کو کھولا نہیں جاسکتا ۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 190ملین پائونڈ برطانیہ سے ریکور ہوئے ہیںاور یہ رقم پاکستان واپس آرہی ہے اور اس کا کچھ حصہ واپس آ چکا ہے۔جس پر یہ دستاویز پاس ہوجاتی ہے۔پرویز خٹک کے مطابق حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں رقم منگوائی جو کہ دراصل بحریہ ٹائون کے اکائونٹ میں آئی اور یہی اس کیس کی بنیاد ہے۔جبکہ حکومت پاکستان کے اکائونٹ میں کچھ بھی نہیں آیا۔اس کے بعد القادر ٹرسٹ آتا ہے اور 458کنال زمین خریدی جاتی ہے جس کی قیمت6کروڑ7لاکھ روپے بحریہ ٹائون ادا کرتا ہے۔ اس کے بعد اس ٹرسٹ کے ٹرسٹی عمران خان اور بشریٰ بی بی بنتے ہیں اور اسی بنیاد پر بشریٰ بی بی کو بھی اس کیس میں شامل کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 2021تک اس ٹرسٹ میں عطیات آتے ہیں اور بعد میں 45کروڑ روپے کی رقم القادرٹرسٹ کے اکائونٹ میں سامنے آتی ہے۔اس کے بعد 240کنال زمین فرح شہزادی کیلئے بنی گالہ میں خریدی گئی۔اس کے بعد اس حکومت میں ’ایسٹ ریکورٹی یونٹ ‘کا تمام ریکارڈ بھی غائب کر دیا گیا جس کے سربراہ شہزاد اکبر تھے۔اس کیس میں اعظم خان کا بیان انتہائی اہم ہے۔ اعظم خان نے کہا کہ وہ 3دسمبر کی کابینہ میٹنگ میں موجود نہیں تھے۔کیونکہ یہ ان کیمرا میٹنگ تھی اور انہیں باہر نکال دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ پرویز خٹک اور زبیدہ جلال کا بیان بھی انتہائی اہم ہے۔ اس کے علاوہ عمران خان کا بیان بھی اہم تھا جس میں کہا گیا کہ میں کبھی کسی کرپشن میں ملوث نہیں پایا گیا اور میں نے یہ ٹرسٹ دینی تعلیم کیلئے قائم کی تھی۔عدالتی فیصلے میں سب سے زیادہ قصوروار مرزا شہزا اکبر اور ضیا المصطفیٰ نسیم کو قرار دیا گیا ہے۔

زاہد گشکوری نے مزید کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ اس کیس میں عمران خان کی سزا معطل ہوتی نظر نہیں آرہی ، نیب نے کیس انتہائی جاندار بنایا ہے۔ عمران خان کی اس کیس میں سزا معطل ہوتی ہے تب ہی وہ باہر آسکتے ہیں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *