وزیراعظم شہبازشریف کا ’ورکنگ ویمن انڈوومنٹ فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف کا ’ورکنگ ویمن انڈوومنٹ فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان

وزیراعظم شہباز شریف نے ورکنگ ویمن انڈوومنٹ فنڈ اور صنفی مساوات قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین کو تعلیم، ہنر مندی اور روزگار کے مواقعوں تک مساوی رسائی فراہم کرکے ہی بااختیار بنایا جاسکتا ہے۔

ہفتہ کے روز وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے خواتین کی کامیابیوں کا جشن منانے اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے لیے عالمی سطح پر منائے جانے والے خواتین کے عالمی دن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مشن ملک کی خواتین کی آزادی کو یقینی بنانے کا غیر متزلزل عزم ہے۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ کی ارکان، پارلیمنٹرینز، کاروباری شخصیات اور ورکرز سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ممتاز خواتین نے وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی اس تقریب میں شرکت کی، جس کا اہتمام وزارت انسانی حقوق اور خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن (این سی ایس ڈبلیو) نے اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کے تعاون سے کیا تھا۔

اس موقع پر وزیر اعظم نے این سی ایس ڈبلیو اور یو این ایف پی اے کی جانب سے تیار کردہ دارالحکومت کی پہلی صنفی مساوات رپورٹ کا اجرا بھی کیا، جس میں چیلنجز کی نشاندہی کی گئی ہے اور تعلیم، صحت، گورننس، سیاسی نمائندگی اور انصاف جیسے کلیدی شعبوں میں حل کی سفارش کی گئی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ان کی حکومت قومی معیشت میں کردار ادا کرنے والے پروگراموں میں خواتین کو شامل کرنے کے عمل کو فروغ دینے کے لیے صوبوں کے ساتھ مل کر مشترکہ اقدامات کرے گی۔ انہوں نے ورکنگ ویمن انڈوومنٹ فنڈ قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ فنڈ کا مقصد یہی ہے کہ خواتین کی مدد کی جاسکے اور انہیں عصر حاضر کے چیلنجز سے نمٹنے میں مدد مل سکے۔

انہوں نے وزیر اعظم کے ویمن امپاورمنٹ پیکیج کو مختلف شعبوں میں خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کو ختم کرنے اور انہیں مردوں کے برابر سہولیات فراہم کرنے کے لیے خصوصی اہتمام کرنے کی سمت ایک انقلابی قدم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’ اگر خواتین کو یکساں مواقع فراہم کیے جائیں تو ہماری پچاس فیصد خواتین کی آبادی کو ایک بامقصد افرادی قوت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کام کرنے والی خواتین کی سہولت کے لیے اسلام آباد میں سرکاری اور نجی محکموں میں ڈے کیئر سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جن کا مقصد سہولیات کے دائرہ کار کو مزید وسعت دینا ہے۔ وزیراعظم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کی ایک بڑی تعداد نے کام اور خاندانوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی جدوجہد میں پیشہ ورانہ کیریئر چھوڑ دیا جس کے نتیجے میں ہنرمند افرادی قوت میں بہت بڑا نقصان ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ’تعلیم یافتہ طبقے خصوصاً خواتین کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ وہ آگے آئیں اور قومی معیشت میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے اسپتالوں، بینکوں اور دیگر پیشوں میں اپنی مہارت کے ساتھ شامل ہوں۔

وزیراعظم کا خواتین کو خراج تحسین

وزیراعظم شہباز شریف نے تحریک پاکستان کی صف اول کی خواتین فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو ، بیگم نصرت بھٹو اور بیگم کلثوم نواز آمریت کے خلاف مزاحمت کی علامت تھیں۔

انہوں نے سماجی کارکن بلقیس ایدھی اور ڈاکٹر رتھ فاؤ، وکیل عاصمہ جہانگیر کا نام لھی لیا۔ انہوں نے سابق اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، لاہور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس عالیہ نیلم اور سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج جسٹس عائشہ ملک کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ‘قوم کی بیٹیاں’ خواتین کو بااختیار بنانے کی ایک قابل ذکر علامت ہیں جنہوں نے اپنے متعلقہ شعبوں میں اپنی پہچان بنائی ہے۔

شہباز شریف نے اپنی جماعت کے سابقہ دور حکومت میں خواتین کی آزادی کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا ذکر کیا جن میں پنجاب میں خواتین کے لیے پہلے انسداد تشدد مراکز کا قیام، سرکاری محکموں کے بورڈز میں خواتین کے کوٹہ میں اضافہ، طالبات کے لیے وظائف میں اضافہ اور 90 ہزار بچوں کو اسکولوں میں داخل کروا کر اینٹوں کے بھٹوں پر چائلڈ لیبر کا خاتمہ شامل ہے۔

گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس میں پاکستان کا 145 واں نمبر حقائق کے منافی ہے، اعظم نذیر تارڑ

اس سے قبل وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اپنے خطاب میں کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر وزارتوں اور محکموں کو گزشتہ سال خواتین پر مشتمل پالیسیوں کو یقینی بنانے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس اقدام کے نتیجے میں محکمانہ بورڈز میں خواتین کی نمائندگی کا تناسب زیادہ ہوا ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس میں پاکستان 146 ممالک میں افغانستان کے بعد 145 ویں نمبر پر ہے جو حقیقی تصویر کی عکاسی نہیں کرتا اور زمینی حقائق کے برعکس ہے‘۔ انہوں نے متعلقہ اداروں پر زور دیا کہ وہ درجہ بندی پر نظر ثانی کریں اور مطلوبہ اعداد و شمار شیئر کرنے کے لیے حکومت سے اجازت لیں۔

اس موقع پر اقوام متحدہ کے ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ نے اپنےخطاب میں کہا کہ اقوام متحدہ صنفی ایکشن پلان سے متعلق پائیدار ترقیاتی اہداف 2030 کے حصول کے لیے پاکستان کی مدد کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

انہوں نے کہا کہ صنفی مساوات کو خواتین کے مخصوص معاملے کے طور پر نہیں بلکہ ایک انسانی مسئلہ کے طور پر تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی صنفی مساوات سے متلق رپورٹ کا اجرا ان چیلنجز کی نشاندہی کرنے میں اہم ہے جن پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ہموار پالیسی سازی کے لیے خواتین کی نمائندگی ضروری 

خصوصی کمیٹی برائے جینڈر مین اسٹریمنگ ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ مختلف سرکاری اداروں اور محکموں میں خواتین کی نمائندگی مقررہ 33 فیصد سے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ مؤثر حکمرانی اور ہموار پالیسی سازی کے لیے ان کی نمائندگی ضروری ہے۔

این سی ایس ڈبلیو کی چیئرپرسن ام لیلیٰ نے اپنے خطا ب میں پاکستان میں صنفی مساوات کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ خواتین متعدد شعبوں میں اپنا کردار ادا کر کے ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کر رہی ہیں۔ بااختیار بنانے کے اقدامات کے طور پر انہوں نے خصوصی طور پر خواتین مسافروں کے لیے پنک بسوں کے آغاز اور ‘ویمن آن وہیلز’ پروجیکٹ پر روشنی ڈالی جس نے خواتین کو ان کی آسان اور آزادانہ نقل و حرکت کے لیے بہتر سہولیات فراہم کیں۔

چیئرمین سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) عاکف سعید نے کہا کہ وزیراعظم کے ویمن امپاورمنٹ پیکیج کے تحت ایس ای سی پی کو ان نجی کمپنیوں کو نامزد کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا جنہوں نے اپنے دفاتر میں فیملی فرینڈلی پالیسیوں پر عمل درآمد کیا ہے۔

10 کمپنیوں کے لیے ایوارڈ کا اعلان

وزیراعظم نے 10 بہترین نجی کمپنیوں کو فیملی فرینڈلی ایوارڈز سے نوازا جن میں الفا بیٹا کور سلوشنز، ارفع کریم ٹیکنالوجی انکیوبیٹر، ایوی ایشن ایم آر او، بلنک کیپیٹل، فنورکس گلوبل، گفٹ ایجوکیشنل، کسٹ پے، لائبا انٹرپرائزز، لیڈیز فنڈ انرجی اور لی اینڈ فنگ پاکستان شامل ہیں۔

یہ ایوارڈز ایس ای سی پی کی جانب سے یو این ویمن اور پاکستان بزنس کونسل کے تعاون سے تیار کردہ آن لائن سروے اور اسکورنگ میٹرکس پر مبنی تھے۔ 2024 میں شروع کیے گئے سروے میں 230 سے زیادہ کمپنیوں نے حصہ لیا، جن میں سے 10 کو شفاف عمل کے ذریعے شارٹ لسٹ کیا گیا۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *