جنوبی کوریا کی آئینی عدالت نے وزیر اعظم ہان ڈک سو کے مواخذے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں دوبارہ قائم مقام صدر کے طور پر بحال کر دیا ہے۔
عدالت کا یہ فیصلہ جنوبی کوریا کے پیچیدہ سیاسی بحران کے حل کی جانب تازہ ترین پیش رفت ہے، اس بحران کا آغاز صدر یون سوک یول کے دسمبر میں سویلین حکمرانی کو ختم کرنے کی کوشش کے بعد ہوا تھا۔
ممبران پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے اقتدار فوج کو منتقل کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے یون سوک یول کے 3 دسمبر کے مارشل لا کے اعلان کو مسترد کر دیا تھا اور اس کے فوراً بعد ہی ان کا مواخذہ کر دیا اور ہان ڈک سو نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھال لیا تھا۔
لیکن چند ہفتوں بعد ہی ممبران پارلیمنٹ نے مارشل لا کی ناکامی اور عدالتی تقرریوں کے تنازع میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام پر ہان ڈک سو کا مواخذہ کر دیا تھا۔
عدالت نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ آئینی عدالت نے وزیر اعظم ہان ڈک سو کے خلاف مواخذے کے مقدمے کی درخواست مسترد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالت نے ہان کے مواخذے کے خلاف ایک کے مقابلے میں 5 کی اکثریت سے فیصلہ سنایا اور 2 ججوں نے دلیل دی کہ یہ معاملہ عدالت میں نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ قانون سازوں کے پاس ان کے مواخذے کے لیے اکثریت نہیں تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ہان ڈک سو کے اقدامات کو بالواسطہ طور پر عوام کی جانب سے دیے گئے اعتماد کو غداری کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ فیصلہ فوری طور پر مؤثر ہے اور اس کے خلاف اپیل نہیں کی جا سکتی۔
ہان ڈک سو جنہوں نے پیر کو فوری طور پر قائم مقام صدارت کا عہدہ سنبھالا، نے آئینی عدالت کے ’دانشمندانہ فیصلے‘ پر اس کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ تمام شہری واضح طور پر انتہائی پولرائزڈ سیاسی دائرے کے خلاف بول رہے ہیں۔ میرے خیال میں اب تقسیم کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہمارے ملک کی ترجیح آگے بڑھنا ہے۔
واضح رہے کہ جنوبی کوریا کے سابق صدر یون سوک یول جنوبی کوریا کے پہلے صدر ہیں جن کے خلاف فوجداری مقدمے کی سماعت ہوئی ہے۔ انہیں مارچ کے اوائل میں طریقہ کار کی بنیاد پر حراست سے لے لیا گیا تھا، تاہم بعد ازاں عدالتی حکم پر ہی انہیں جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔