کراچی پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی سے متعلق کیس میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی رہنما سمی دین بلوچ کو مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) آرڈیننس کے تحت حراست میں لے لیا جبکہ کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مزید 10 ارکان کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔
وکیل دفاع جبران ناصر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عدالت کے حکم کے بعد 5 کارکنوں میں سے صرف سمی دین بلوچ کو پولیس نے ایم پی او کے تحت 30 دن تک حراست میں لے لیا ہے جبکہ دیگر 4 کے ٹھکانے معلوم نہیں ہیں۔اس سے ایک روز قبل سمی بلوچ اور متعدد دیگر افراد کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو کوئٹہ میں دھرنے کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔
منگل کی صبح تفتیشی افسر (آئی او) نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (جنوبی) سریش کمار کے سامنے ایک درخواست پیش کی، جس میں سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے سٹی کورٹس میں متعلقہ عدالت کے بجائے سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مجسٹریٹ کے سامنے بی وائی سی کے 5 گرفتار کارکنوں کو پیش کرنے کی اجازت مانگی گئی۔
سیشن جج سے اجازت ملنے کے بعد تفتیشی افسر نے سمی دین بلوچ، رزاق علی، عبدالوہاب، شہداد اور سلطان کو جوڈیشل مجسٹریٹ (جنوبی) شہزاد خواجہ کے روبرو پیش کیا۔ کراچی بار ایسوسی ایشن (کے بی اے) کے صدر عامر نواز وڑائچ اپنے ممبران کے ہمراہ بی وائی سی کارکنوں کی حمایت میں عدالت میں موجود تھے۔
پراسیکیوٹر شکیل احمد عباسی اور وکیل دفاع کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے سی آر پی سی کی دفعہ 63 کے تحت کارکنوں کو بری کردیا اور تفتیشی افسر کو مقررہ وقت میں چالان جمع کرانے کی ہدایت کی۔
ملزمان کو بری کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے جج نے کہا کہ سی آر پی سی کی دفعہ 4(این) کے تحت مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی دفعہ 155-(2) کے تحت اس طرح کی اجازت کے بغیر کوئی تفتیش شروع یا کی جاسکتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ جب تفتیشی افسر اور پراسیکیوٹر سے پوچھ گچھ کی گئی تو وہ تسلی بخش جوابات دینے میں ناکام رہے۔ بعد ازاں جبران ناصر نے صحافیوں کو بتایا کہ ایف آئی آر غیر قانونی ہے اور مقامی اتھارٹی کی منظوری کے بغیر درج کی گئی ہے، مجسٹریٹ نے ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ عدالت کی جانب سے رہا کیے جانے کے بعد ایم پی او کے تحت بی وائی سی کے کتنے کارکنوں کو گرفتار یا حراست میں لیا گیا، جبران ناصر نے کہا کہ 5 میں سے صرف سمی دین کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ رزاق علی، عبدالوہاب، شہداد اور سلطان کے ٹھکانے ابھی تک نامعلوم ہیں۔
حراست کا حکم
سیکریٹری داخلہ سندھ کی جانب سے جاری کردہ سرکاری حکم نامے کے مطابق بی وائی سی کارکنوں کو حراست میں لینے کا فیصلہ آئی جی سندھ کی جانب سے بھیجے گئے خط کی بنیاد پر کیا گیا ہے جس میں امن و امان کے مسائل کے خدشات کا حوالہ دیا گیا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ صوبائی پولیس چیف نے 25 مارچ کو محکمہ داخلہ کو خط لکھا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ سمی دین بلوچ اور 4 دیگر افراد عبدالوہاب بلوچ، رزاق علی، شہداد اور سلطان عوام کو کراچی میں سڑکیں بلاک کرنے اور دھرنے دینے پر اکسا رہے ہیں جس سے امن و امان میں خلل پڑ سکتا ہے اور امن و امان کے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ان کی جانب سے اس طرح کا عمل عوامی سلامتی اور امن عامہ کو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔ لہٰذا آئی جی پی نے ایم پی او 1960 کے تحت مذکورہ کارکنوں کو 30 دن تک حراست میں رکھنے کی سفارش کی۔
سرکاری حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ درخواست کی بنیاد پر اور کیس کے میرٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت سندھ اس بات سے مطمئن تھی کہ عوامی تحفظ کا شدید خدشہ ہے اور ملک اور عوام کے مفاد میں مذکورہ افراد کی کسی بھی عوامی جگہ پر موجودگی سے عوامی سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور یہ امن و امان کی خلاف ورزی کا سبب بن سکتا ہے۔
لہٰذا سندھ مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس 1960 کے سیکشن 3 (آئی) کے تحت حکومت سندھ کے پاس یہ یقین کرنے کی کافی وجوہات ہیں کہ مذکورہ افراد کو 30 دن کی مدت کے لیے گرفتار کیا جائے اور حراست میں رکھا جائے۔ ان کی تحویل سینٹرل جیل کراچی کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ کے ماتحت رکھی جائے گی۔ انہیں اس حکم کے خلاف صوبائی حکومت کو نمائندگی دینے کی آزادی ہوگی۔
بلوچستان میں گرفتاریاں
ادھر کوئٹہ میں پولیس نے بی وائی سی کے مزید 10 کارکنوں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف 3 مقدمات درج کرلیے ہیں۔ یہ مقدمات منگل کو اس وقت درج کیے گئے جب بی وائی سی کارکنوں نے کوئٹہ میں سونا خان چوک، قمبرانی روڈ اور ویسٹرن بائی پاس پر سڑکیں بند کردیں۔ یہ مقدمات سریاب، نیو سریاب اور بریوری تھانوں میں درج کیے گئے تھے۔
گرفتار کارکنوں کے علاوہ صبیحہ بلوچ، گلزادی بلوچ، شال علی بلوچ، نوشین بلوچ، صبغت اللہ بلوچ، گلزار دوست بلوچ اور ریاض گشکوری سمیت بی وائی سی رہنماؤں کو بھی مقدمات میں نامزد کیا گیا ہے۔
پولیس افسروں کی شکایت پر درج مقدمات میں املاک کو نقصان پہنچانے، غیر قانونی طور پر جمع ہونے، غداری، تشدد پر اکسانے اور نفرت پھیلانے کے الزامات شامل ہیں۔
کوئٹہ پولیس نے اب تک بی وائی سی کے 500 سے زیادہ رہنماؤں اور کارکنوں بشمول ماہ رنگ بلوچ کے خلاف 4 مختلف تھانوں میں 7 مقدمات درج کیے ہیں۔ بلوچستان ہائیکورٹ نے بی وائی سی کی چیف آرگنائزر ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے انہیں جیل میں اپنے رشتہ داروں اور وکلا سے ملنے کی اجازت دے دی۔ جسٹس روزی خان بریچ اور جسٹس شوکت علی رخشانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بہن نادیہ بلوچ کی درخواست پر سماعت کی۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے درخواست کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے وفاقی وزارت داخلہ، صوبائی محکمہ داخلہ اور بلوچستان پولیس کے سربراہ کو نوٹس جاری کردیے۔ درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ ماہ رنگ بلوچ کے اہل خانہ اور وکلا کو ڈسٹرکٹ جیل میں ملاقات کی اجازت دی جائے کیونکہ جیل حکام نے اس سے قبل انہیں ان سے ملنے کی کوشش کرنے پر اجازت نہیں دی تھی۔