خیبر پختونخوا میں اقلیتی برادری کے حقوق نظرانداز، حکومتی فنڈز اور منصوبے تعطل کا شکار

خیبر پختونخوا میں اقلیتی برادری کے حقوق نظرانداز، حکومتی فنڈز اور منصوبے تعطل کا شکار

پشاور (عارف خان) خیبر پختونخوا کی اقلیتی برادری کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لیے مختص حکومتی منصوبے بری طرح تعطل کا شکار ہیں۔

جس کے باعث صوبے میں رہنے والی مذہبی اقلیتیں شدید مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔ عبادت گاہوں کی بحالی، تعلیمی اسکالرشپس، جہیز فنڈز اور روزگار کے لیے مختص مالی امداد پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ امن و امان کی صورت حال کے باعث متعدد مذہبی مقامات بند ہو چکے ہیں۔

ذرائع کے مطابق، صوبے میں امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث سکھ اور ہندو برادری کی متعدد عبادت گاہیں غیر فعال ہو چکی ہیں۔

کرم اور ہنگو کے چار گوردوارے بند ہو چکے ہیں، جبکہ تقریباً پانچ مندروں میں عبادت کا سلسلہ معطل ہے۔ حکومت کی جانب سے عبادت گاہوں کی بحالی اور تہواروں کے لیے گرانٹس دینے کا اعلان کیا گیا تھا تاکہ اقلیتی برداری اپنے مذہبی تہوار اور رسومات بہتر انداز میں ادا کرسکیں، لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ ہر عبادت گاہ کو پانچ لاکھ روپے کی گرانٹ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، مگر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

خیبر پختونخوا میں بھتہ خوری عروج پر، جماعت اسلامی کا امن مارچ کا اعلان

اقلیتی برادری کے لیے جہیز فنڈز، تعلیمی اسکالرشپس اور معذور افراد کے لیے مالی امداد بھی برسوں سے روک دی گئی ہے۔ گزشتہ ادوار میں اقلیتی لڑکیوں کو جہیز کے لیے 80 ہزار روپے تک کی مدد دی جاتی تھی، لیکن چار سال سے یہ سلسلہ بھی بند ہے۔ اسی طرح بیواؤں کو 15 ہزار روپے، یتیم بچوں اور معذور افراد کو 10 ہزار روپے سالانہ امداد دی جاتی تھی، جو کئی سالوں سے معطل ہے۔

تعلیمی شعبے میں اقلیتی طلباء کے لیے اسکالرشپس اور ایڈمیشن میں دو فیصد کوٹہ کا بھی یہی حال ہے۔ انٹرمیڈیٹ کے طلباء کو 50 ہزار، بیچلر کے طلباء کو 60 ہزار، بیچلر آف سائنس کے طلباء کو 80 ہزار، ایم فل کے طلباء کو 2 لاکھ اور پی ایچ ڈی کے طلباء کو 10 لاکھ روپے تک کی اسکالرشپس دی جاتی تھیں، لیکن 2021 کے بعد سے یہ سہولت بھی بند کر دی گئی ہے۔اقلیتی برداری کے لئے یونیورسٹیوں میں داخلہ کے لئے دو فیصد کوٹہ مختص کیا گیا مگر اس پر بھی بیشتر جامعات عمل درآمد نہیں کر رہی ہیں جس کے باعث اعلی تعلیم کا حصول اقلیتوں کےلئے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

اقلیتی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے 15 کروڑ روپے کے کاروباری منصوبے کو موجودہ حکومت نے سالانہ ترقیاتی پروگرام سے خارج کر دیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت اقلیتی افراد کو 50 ہزار سے 5 لاکھ روپے تک کی مدد دی جانی تھی، تاکہ وہ چھوٹے کاروبار شروع کر سکیں، لیکن اب یہ منصوبہ بھی ختم ہو چکا ہے۔

اس کے علاوہ، سرکاری نوکریوں میں اقلیتوں کے لیے مخصوص 5 فیصد کوٹے پر بھی عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ صوبے کے مختلف محکموں میں اقلیتوں کی خالی اسامیوں کو پُر کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی، جس کے باعث اقلیتی برادری کے افراد روزگار کے مواقع سے محروم ہو رہے ہیں۔

اقلیتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے مسلسل نظرانداز کیے جانے کے باعث ان کی برادری کے مسائل دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ انھوں نےمطالبہ کیا ہے کہ جہیز فنڈز، اسکالرشپس اور کاروباری امداد جلد از جلد بحال کی جائے، جبکہ عبادت گاہوں کی بحالی اور تحفظ کے لیے فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔

اس سلسلہ میں اقلیتی برادری کے لئے منتخب فوکل پرسن وزیر زادہ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جتنے بھی منصوبوں کے لئے فنڈز بند کئے گئے ہیں ان تمام کو بحال کرنے کے لئے اقدامات آٹھائے جارہے ہیں اور بہت جلد اقلیتی برداری کی مشکلات کم ہو جائیں گی۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *