ججز کے تبادلوں و تقریوں سے متعلق کیس کی سماعت، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سمیت 3 ججز کو نوٹس جاری

ججز کے تبادلوں و تقریوں سے متعلق کیس کی سماعت، اسلام آباد ہائیکورٹ کے  چیف جسٹس سمیت 3 ججز کو نوٹس جاری

سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس اور اس کے 2 دیگر ججز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کے حالیہ تبادلے اور سنیارٹی لسٹ میں تبدیلیوں کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی ہے، جس دوران آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کو نوٹس جاری کر دیا، تاہم کام سے روکے جانے کی استدعا مسترد کر دی گئی۔

جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز، کراچی بار ایسوسی ایشن اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔

فروری میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس خادم حسین سومرو اور بلوچستان ہائیکورٹ کے جسٹس محمد آصف کو اسلام آباد ہائی کورٹ منتقل کیا گیا تھا۔

پیر کو 5 رکنی بینچ نے ججز کی تقرری اور تبادلوں سے متعلق کیس کی سماعت کی ۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت میں پیش ہوئے جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان اور راجہ مقصود کے وکیل ادریس اشرف عدالت میں پیش ہوئے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے سابق اے جی پی منیر اے ملک اور سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر بیرسٹر صلاح الدین احمد عدالت میں پیش ہوئے۔ فیصل صدیقی کے بی اے کے وکیل کی حیثیت سے سماعت میں شریک ہوئے۔

عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس ڈوگر، جسٹس سومرو اور جسٹس آصف علی زرداری کو بھی نوٹس ز جاری کردیے۔ عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ اور دیگر 3 ہائی کورٹس کے رجسٹرارز کو بھی نوٹس جاری کیے جہاں سے ججوں کا تبادلہ کیا گیا تھا۔

تاہم بینچ نے تبادلہ شدہ ججز کو ان کے فرائض کی انجام دہی سے روکنے کی درخواست درخواست مسترد کردی ہے۔ اے جی پی اعوان کو بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے جس کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت 17 اپریل تک ملتوی کردی ہے۔

واضح رہے کہ صدر آصف علی زرداری نے یکم فروری کو لاہور، بلوچستان اور سندھ ہائی کورٹس کے ایک ایک جج کو اسلام آباد ہائی کورٹ منتقل کرنے کی منظوری دی تھی۔ انہوں نے اعلیٰ ججز کو لکھے گئے ایک خط میں متنبہ کیا تھا کہ اس طرح کا کوئی بھی قدم آئینی طریقہ کار اور عدالتی اصولوں کی خلاف ورزی ہوگا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس سمن رفعت امتیاز نے استدعا کی کہ آئین کے آرٹیکل 194 کے تحت حلف اٹھانے تک ان کی عدالت میں منتقل ہونے والے ججز کو اس کا مستقل رکن نہیں مانا جا سکتا۔

درخواست گزاروں نے 10 فروری کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کی جانب سے غور کی جانے والی سنیارٹی لسٹ کو بھی چیلنج کیا اور دلیل دی کہ اس میں ‘غلط طریقے سے’ تبادلہ کیے گئے ججز کو شامل کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے نامناسب سفارشات پیش کی گئیں۔

درخواست گزاروں نے مطالبہ کیا تھا کہ جسٹس ڈوگر کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر تقرری کے لیے 12 فروری کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔

وفاقی دارالحکومت اور کراچی میں وکلا کی مختلف تنظیموں کی جانب سے بھی تبادلوں کی مخالفت کی گئی۔ پنجاب میں وکلا کے 2گروپوں کے مؤقف میں واضح تقسیم دیکھی گئی اور ان کے کچھ ارکان کو مخصوص سیاسی صف بندیوں کے طور پر دیکھا گیا۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *