تنخواہ یا پنشن، حکومت کاریٹائرڈ ملازمین سے متعلق باضابطہ نوٹیفکیشن جاری

تنخواہ یا پنشن، حکومت کاریٹائرڈ ملازمین سے متعلق باضابطہ نوٹیفکیشن جاری

وفاقی حکومت نے باضابطہ طور پر نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے کہ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین چاہے وہ کنٹریکٹ پر ہوں یا ریگولر بنیادوں پر، اب انہیں تنخواہ لینے یا پنشن وصول کرنے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

وزارت خزانہ کے ریگولیشن ونگ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ اگر وفاقی حکومت کے کسی پنشنر کو 60 سال کی عمر کے بعد ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری ملازمت میں دوبارہ بھرتی کیا جاتا ہے، چاہے وہ ریگولر،کنٹریکٹ یا ملازمت کے کسی بھی طریقے پر ہو، تو پنشنر کے پاس پنشن کا آپشن برقرار رکھنے یا اس ملازمت کے دوران مذکورہ تنخواہ لینے کا اختیار ہوگا۔

اس سے پہلے، دوبارہ بھرتی کیے جانے والے سرکاری ملازمین موجودہ ملازمت کی تنخواہ، چاہے وہ پر ہو یا ریگولر اور پنشن کا بیک وقت 2 پنشنز کا فائدہ اٹھاتے تھے، حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے نہ صرف سرکاری خزانے پر اضافی مالی بوجھ پڑا بلکہ دیگر ملازمین کے کیریئر کی ترقی میں بھی رکاوٹ پیدا ہوئی۔ تازہ ترین اقدام پنشن اصلاحات کا حصہ ہے جو آئی ایم ایف پروگرام کی ایک اہم ضرورت ہے اور مطالبہ بھی ہے۔

اس اقدام کا اعلان ابتدائی طور پر اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 2022-23 کے بجٹ میں کیا تھا، لیکن اس پر اس وقت تک عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے گزشتہ سال کے بجٹ میں آئی ایم ایف کے نئے پروگرام پر دستخط کرنے سے پہلے اس پروگرام کا دوبارہ اعلان نہیں کیا تھا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق ان اصلاحات کے اہم فیصلوں میں سے ایک ’مسلح افواج کے لیے کنٹری بیوٹری پنشن اسکیم  کو جون 2025 سے نافذ العمل ہونے کے نوٹیفکیشن کے باوجود 2026 تک ملتوی کیا جاسکتا ہے۔

گزشتہ سال ستمبر میں حکومت نے سول حکومت اور مسلح افواج میں نئے داخل ہونے والوں جوانوں کے لیے کنٹری بیوٹری فنڈ اسکیم متعارف کرانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ وزارت خزانہ نے گزشتہ سال ایک نوٹیفکیشن میں کہا تھا کہ وفاقی حکومت کے ملازمین اپنی بنیادی تنخواہ کا 10 فیصد حصہ ڈالیں گے جبکہ حکومت ملازمین کی بنیادی تنخواہ کا 20 فیصد حصہ ڈالے گی۔

3 ستمبر 2024 کے نوٹیفکیشن کے مطابق اس اسکیم کا اطلاق یکم جولائی 2024 کے بعد بھرتی ہونے والے سرکاری ملازمین اور یکم جولائی 2025 کے بعد تعینات ہونے والے مسلح افواج کے جوانوں پر ہونا ہے۔ حکومت نے 2024-25 کے بجٹ میں پنشن فنڈ کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

یہ اسکیم بین الاقوامی قرض دینے والے اداروں، خاص طور پر ورلڈ بینک کے مشورے پر متعارف کرائی گئی تھی تاکہ پنشن کی بڑھتی ہوئی حکومتی ذمہ داریوں پر قابو پایا جا سکے۔ نئی اسکیم کا اطلاق موجودہ ملازمین پر نہیں ہوگا۔ حکومت کا ماننا ہے کہ کنٹری بیوشن پنشن فنڈ مستقبل کے بجٹ میں پنشن واجبات میں اضافے کو سست کردے گا۔

رواں مالی سال میں پنشن پر وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 1.014 ٹریلین روپے لگایا گیا ہے جو مالی سال 24 میں 821 ارب روپے سے زیادہ ہے جو ایک سال میں تقریباً 24 فیصد زیادہ ہے۔ اس میں رواں مالی سال کے دوران مسلح افواج کی پنشن واجبات 563 ارب روپے سے بڑھ کر 662 ارب روپے تک پہنچ گئیں جو تقریباً 18 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہیں۔

دوسری جانب رواں مالی سال کے لیے شہریوں کے پنشن اخراجات کا تخمینہ 220 ارب روپے رکھا گیا ہے جو گزشتہ سال کے 228 ارب روپے کے مقابلے میں 3.5 فیصد کم ہے۔

اس کے بعد، اس سال جنوری میں، حکومت نے مزید پنشن اصلاحات کا نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں متعدد پنشنوں کو ختم کرنا اور مستقبل میں پنشن کے حساب کو ریٹائرمنٹ سے پہلے حاصل ہونے والی آخری تنخواہ کے بجائے گزشتہ 24 ماہ کی تنخواہوں کی اوسط پر منتقل کرنا شامل ہے۔ یہ مطلع کیا گیا تھا کہ ’اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ پنشن کا حقدار بن جاتا ہے، تو ایسا شخص صرف پنشن یا تنخواہ میں سے ایک لینے کا انتخاب کرنے کا مجاز ہوگا‘۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *