ضم شدہ اضلاع میں سیاحتی منصوبوں پر عملدرآمد میں ناکامی، سیاحتی ترقی کا خواب ادھورا رہ گیا۔
خیبر پختونخوا کے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں سیاحت کے فروغ کے لیے شروع کیے گئے اربوں روپے کے منصوبے غیر مؤثر منصوبہ بندی، ناقص عمل درآمد اور بدانتظامی کی نذر ہو گئے ہیں۔ انضمام کو سات سال گزر چکے ہیں، مگر اب تک سیاحتی ترقی کے واضح آثار نظر نہیں آتے، سوائے ضلع اورکزئی میں ایک سمانہ ریسٹ ہاؤس کے، جو کہ واحد عملی قدم سمجھا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔ مزید افسوسناک امر یہ ہے کہ ان منصوبوں کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کی تقرری بھی غیر قانونی طریقے سے کی گئی۔
دستاویزات کے مطابق 2020 میں ضم شدہ اضلاع میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے 2 ارب 60 کروڑ روپے کا ایک بڑا منصوبہ شروع کیا گیا تھا، جس میں تمام قبائلی اضلاع اور سب ڈویژنز میں سیاحتی مقامات، ریسٹ ایریاز اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی ترقی شامل تھی۔ اس کے علاوہ 1 ارب 50 کروڑ روپے کا ترقیاتی پروگرام، 10 کروڑ روپے کا پروموشنل پراجیکٹ اور 49 کروڑ 40 لاکھ روپے کے فیسٹیولز اور سیاحتی سرگرمیوں کے منصوبے بھی منظور کیے گئے۔ مگر ان سب پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان تمام منصوبوں کے لیے ایک پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ قائم کیا گیا، جسے تین سال کے اندر منصوبے مکمل کرنے تھے۔ حیرت انگیز طور پر اس یونٹ کے لیے مختص 7 کروڑ 80 لاکھ روپے تو خرچ کیے گئے، مگر باقی تمام منصوبوں پر مجموعی فنڈز کا صرف 10 فیصد سے بھی کم خرچ ہوا۔
ان منصوبوں کے پراجیکٹ ڈائریکٹر اشتیاق مروت دراصل خیبر پختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی کے ملازم ہیں، جبکہ متعلقہ قوانین کے مطابق پراجیکٹ ڈائریکٹر کی تقرری یا تو مقابلے کے امتحان کے ذریعے ہونی چاہیے یا کسی سول سرونٹ کو ڈیپوٹیشن پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ان قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اشتیاق مروت کو تعینات کیا گیا، حالانکہ وہ نہ تو پبلک سرونٹ ہیں اور نہ ہی سول سرونٹ۔ یاد رہے کہ 8 ستمبر 2020 کو پراجیکٹ سلیکشن کمیٹی نے ان کی تعیناتی کی سمری پر اعتراضات لگا کر اسے مسترد کر دیا تھا، لیکن اس کے باوجود ان کی تقرری عمل میں لائی گئی اور ان کی ڈیپوٹیشن 2019 سے شروع ہوئی۔
قانون کے مطابق ڈیپوٹیشن کی مدت تین سال ہوتی ہے، جس میں زیادہ سے زیادہ دو سال کی توسیع دی جا سکتی ہے۔ تاہم اشتیاق مروت کو اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلسل توسیع دی گئی۔ ان کی ڈیپوٹیشن 14 اکتوبر 2019 سے شروع ہو کر 14 اکتوبر 2022 کو ختم ہوئی، پھر مزید دو سال کی توسیع دی گئی جو 14 اکتوبر 2024 کو مکمل ہو چکی ہے، مگر اب انہیں ایک اور توسیع دی جا چکی ہے، جو کہ قانوناً ممکن نہیں۔
اشتیاق مروت کے اصل محکمے، خیبر پختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی، نے ان کی واپسی کے لیے یکم نومبر 2023 اور 8 دسمبر 2023 کو دو مراسلے محکمہ سیاحت کو ارسال کیے۔ اس وقت کے سیکرٹری سیاحت نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو نوٹ لکھا کہ اشتیاق مروت کو ان کے اصل محکمہ واپس بھیجا جائے اور ان کی جگہ کسی اور کو پراجیکٹ ڈائریکٹر مقرر کیا جائے، لیکن نگران وزیر سیاحت نے اس نوٹ کو روک دیا۔
منصوبے کی ناکامی کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ فیلڈ ٹورازم آفیسرز سمیت دیگر 62 تخلیق شدہ پوسٹوں پر کوئی تقرری نہیں کی گئی۔ یہاں تک کہ دفتر کے لیے ایک لاکھ 80 ہزار روپے ماہانہ کرایہ پر گھر قواعد کے برعکس حاصل کیا گیا۔ ورلڈ بینک کی جانب سے فراہم کردہ قیمتی سامان — جن میں سولر سسٹمز، جنریٹر، ایل ای ڈی اسکرینز اور پرنٹرز شامل تھے — کا موجودہ مقام مشکوک ہے۔ دفتر کی منتقلی کے دوران یہ سامان کہاں گیا، اس بارے میں محکمہ سیاحت بھی لاعلم ہے۔
رابطہ کرنے پر پراجیکٹ ڈائریکٹر اشتیاق مروت نے بتایا کہ جنوبی وزیرستان، خیبر اور اورکزئی میں اراضی کی خریداری کے لیے سرٹیفکیٹس ڈپٹی کمشنرز کے پاس جمع کروا دیے گئے ہیں، اور گاڑیاں فیسٹیولز کے لیے کرائے پر لی جاتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ای آر کے پی کی طرف سے دیا گیا سامان نئے دفتر منتقل کر دیا گیا ہے، اور انہوں نے کسی کو کنٹیجنسی بنیادوں پر تعینات نہیں کیا۔ ان کے مطابق تمام کام “پریکٹیکل کاپی ون” کے تحت کیا گیا ہے، اور انہیں پہلے تین سال، پھر دو سال اور اب مزید دو سال کی ڈیپوٹیشن اسٹیبلشمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے دی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق، تین سالہ عرصے کے دوران منصوبے مکمل نہ ہونے کے باعث نہ صرف سیاحت کا فروغ ممکن نہ ہو سکا، بلکہ لاگت میں اضافے سے قومی خزانے پر مالی بوجھ بھی بڑھ گیا ہے اور منظور شدہ منصوبے بھی ایکسپائر ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔