بائیس اپریل کو پہلگام واقعے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے پیش نظر، بھارت کی وزارت داخلہ نے 7 مئی سے 9 مئی تک ملک گیر شہری دفاع (سول ڈیفنس) کی فرضی مشقوں کا اعلان کیا ہے۔
ان مشقوں میں فضائی حملے کے سائرن، بلیک آؤٹ اور اہم تنصیبات کی چھپائی شامل ہوگی، جن کا مقصد عام شہریوں کو جنگی حالات کے لیے تیار کرنا ہے۔ تاہم، دفاعی ماہرین نے ان مشقوں کے ارادے اور مضمرات پر سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی نے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ’مذاق‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ مشقیں حقیقی فوجی تیاریوں کی عکاسی کرنے کے بجائے محض میڈیا پر مبنی بیانیے کا حصہ ہیں۔
ایک حالیہ پوسٹ میں ساہنی نے نشاندہی کی کہ حقیقی جنگی سرگرمیوں کی عدم موجودگی—جیسے فوجیوں کی نقل و حرکت یا آپریشنل تعیناتی، جو عام طور پر اس طرح کی بڑے پیمانے کی مشقوں کے ساتھ ہوتی ہے اگر کوئی قابلِ اعتبار خطرہ موجود ہو—اس اقدام کی حقیقت پر سوالیہ نشان ہے۔
انہوں نے دلیل دی کہ اگرچہ فرضی مشقیں علامتی مقصد پورا کرسکتی ہیں، لیکن ان کا مقصد عملی تیاری کو یقینی بنانا نہیں بلکہ عوامی اضطراب کو ہوا دینا اور سیاسی بیانیے کو مضبوط کرنا ہے۔
پہلگام حملے کے فوراً بعد ان مشقوں کے انعقاد کے وقت نے عوامی بحث کو مزید تیز کر دیا ہے۔ اگرچہ بھارتی حکام نے اس واقعے کا الزام بغیر کسی حتمی شواہد کے پاکستان پر عائد کیا ہے، پاکستان نے واضح طور پر اس میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے اور بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، جس کا اعادہ وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں برطانوی ہائی کمشنر سے ملاقات کے دوران کیا تھا۔