چترال (لطیف الرحمان) کیلاشا/کیلاشہ/ کیلاش وادی سطح سمندر سے 6,500 فٹ سے زیادہ کی بلندی پر واقع ہے اس کی خصوصیات کھڑی ڈھلوانیں تنگ گھاٹیاں درے اور چٹانی علاقے ہیں یہ علاقہ نباتات اور حیوانات کی متنوع رینج کا گھر ہے بشمول نایاب انواع جیسے برفانی چیتے اور ہمالیائی کالا ریچھ وغیرہ۔
کالاشہ کی وادیاں شمالی پاکستان کے ضلع چترال کی وادیاں ہیں یہ وادیاں ہندوکش پہاڑی سلسلے سے گھری ہوئی ہیں وادی کے باشندے کالاشی لوگ ہیں جن کی ایک منفرد ثقافت و زبان ہے اور وہ قدیم یونانی مذہب کی ایک شکل کی پیروی کرتے ہیں یوں کیلاشا کی وادیاں پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سیاحوں کے لیے بھی کشش کا باعث ہیں تین اہم وادیاں ہیں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ آبادی والی وادی بمبوریت ہے جو وادی کنڑ میں ایون سے سڑک کے ذریعے پہنچتی ہے۔
یہاں ہی باہر سے آنے والے سیاحوں کے لئے مختلف قسم کے تقریبا ستر کی تعداد میں ہوٹل ، گیسٹ ہاؤسز ، موجود ہیں جہاں رہائش کے ساتھ کھانے پینے کی سہولیات دستیاب ہوتی ہیں دوسری وادی (رمبور) بمبوریت کے شمال میں ایک طرف کی وادی ہے جہاں رہائش کے لیے ہوٹل تو دستیاب نہیں لیکن عموماً فیسٹیول کے دنوں میں لوگ دن کے اوقات میں اس وادی کا چکر لگا کر شام کو رہائش کے لئے واپس بمبوریت آجاتے ہیں تیسری وادی (بریر) بمبوریت کے جنوب میں وادی کنڑ کی ایک طرف قدرے چھوٹی وادی ہے۔
عرض پاک یوں تو اپنی لازوال خوبصورتی کے باعث کوئی ثانی نہیں رکھتی لیکن جو چیز سب سے منفرد بناتی ہے وہ ہیں یہاں کے سب سے منفرد مقامات بات کی جائے وادی کیلاش کی تو اس وادی کی شہرت دنیا بھر کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہے چترال کی سرزمین پر موجود ایک سحر انگیز وادی ہے یہاں کی خوبصورتی ثقافت اور تہواروں کے رنگ اپنی مثال آپ ہیں یہاں کے باشندے ہزاروں سال سے اس منفرد ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں۔
ملک پاکستان کے طول وعرض اور دنیا بھر سے ہزاروں سیاح اس منفرد وادی کے حسن کو دیکھنے کے لئے امڈ آتے ہیں لفظ کالاش کا مطلب ہے کالے کپڑے پہننے والے یہ نام اس لئے پڑا ہے کہ یہاں عورتوں کا عام لباس ایک لمبا سیاہ فراک نما کرتا ہے اس لباس کا سب سے منفرد حصہ وہ ہے جسے سر پر ٹوپی کی شکل میں رکھا جاتا ہے قدیم روایات کے مطابق کیلاش مشہور یونانی جرنیل اسکندر اعظم کے ان سپاہیوں کی اولاد ہیں جنہوں نے مختلف فتوحات کے بعد یہاں پر پڑاؤ ڈالا تھا یہاں کے باشندوں میں یونانیوں کے خدوخال آج بھی بالکل عیاں نظر آتے ہیں کیلاش کے لوگ سال میں تین مشہور تہوار مناتے ہیں۔
جن میں شامل پہلا تہوار چلم جوشی تیرہ مئی سے سترہ مئی تک منایا جاتا ہے، دوسرا اچاؤ نامی تہوار اکیس سے تئیس اگست تک، تیسرا تہوار چاؤمس نو دسمبر سے تئیس دسمبر تک منایا جاتا ہے۔
ان مواقع پر دوشیزائیں قطاروں میں ایک دوسرے کے کندھوں پر بازو رکھے ہلکورے لیتی ہوئی بانسری کی تان اور ڈھول کی تال پر رقص کرتی ہیں وادی کالاش تین وادیوں پر مشتمل ایک علاقے کا نام ہے جس میں رومبور ، بریر اور بڑی وادی بمبوریت شامل ہیں۔
کیلاش کافرستان کے نام سے بھی مشہور ہے یہاں کی زبان فارسی سے کچھ نہ کچھ مماثلت رکھتی ہے کیلاش قبائل مذہبی طور پر کئی خداؤں کو مانتے ہیں اور روحانیت پر کامل یقین رکھتے ہیں یہاں کے قبائل کی مذہبی روایات کے مطابق قربانی دینے کا رواج اہم ہے جوکہ ان کی تین وادیوں میں امن نیک بختی اور خوشحالی کی علامت سمجھی جاتی ہے کیلاش قبائل میں مشہور مختلف رواج اور کئی تاریخی حوالہ جات اور قصے عام طور پر قدیم روم کی ثقافت سے مستعار لئے جاتے ہیں
بمبوریت
یہ وادی مین چترال روڈ اور آیون گاوں سے اٹھارہ کلومیٹر اور تقریبا ڈیڑھ گھنٹے کے سفر پہ موجود ہے ایون سے آگے سڑک کچی دشوار گزار ، تنگ ، چڑھائیوں اور خطرناک موڑوں پہ مشتمل ہے۔
بمبوریت کی آبادی تقریباً تین ہزار کے قریب اور تینوں وادیوں بمبوریت ، رمبور ، بریر کی کل ابادی تقریبا پانچ ہزار نفوس پر مشتمل ہے بارہ سو کے قریب رجسٹرڈ ووٹ ہے
بمبوریت وادی ، انیش ، برون ، برون بالا ، باتریک ، کراکال جیسے چھوٹے چھوٹے گاؤں پر مشتمل ہے۔
جستک_ہان (عبادت گاہ)
جستک ہان ایک اہم اور مقدس عبادت گاہ ہے اس عمارت کی چار دیواری ، چھت اور چھت کے اوپر چبوترہ نما موجود ہے دروازوں اور ستونوں پر روایتی نقاشی کی گئی ہے اس عبادت گاہ میں چاؤمس اور فوتگی کی رسومات ادا کی جاتی ہیں جستک ہان اور اس کی چھت کو مقدس سمجھا جاتا ہے اسے نذرانے اور قربانی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے مقامی اور سیاح خواتین کو اس کے چھت پر جانے کی اجازت نہیں اس لئے یہاں واضح لکھا ہوتا ہے کہ سیاحوں کو چاہئے کہ وہ مقامی تہذیب و ثقافت کا خصوصی خیال رکھیں۔
پلاجاؤ (رقص گاہ)
چونکہ ان کی زندگی میں خوشی ایک بہت بڑا عنصر ہے تو اس حوالے سے انہوں نے مشترکہ طور پہ مل کر رقص کرنے اور ناچ گانے کے لئے ایک جگہ مختص کی ہوئی ہے جسے پلاجاو کے نام سے پکارا جاتا ہے ان کے جتنے بھی سالانہ فیسٹیول ہوتے ہیں یہ سب وہاں اکٹھے ہو کر اور مخصوص فراک نما کپڑے زیب تن کر کے ایک دوسرے کے کندھوں پہ ہاتھ رکھ کے ٹولیوں کی شکل میں دائروں کی صورت اپنے مخصوص انداز میں بانسری اور ڈھول کی تال پر رقص کرتے ہیں۔

شادی
فوتگی کی طرح ان کے ہاں پیدائش اور شادی بھی بھی حیران کن ہے ان کے رواج کے مطابق لڑکی کو لڑکا بھگا کر اپنے گھر لے جاتا ہے پھر لڑکے لڑکی کے والدین اور اور گاؤں کے بڑوں کی اس کی خبر ہوتی ہے جو لڑکے کے ہاں آکر لڑکی سے اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ کیا اس کے ساتھ کوئی زور زبردستی تو نہیں کی گئی بلکہ وہ اپنی مرضی سے لڑکے کے ساتھ گئی اور خوش ہے یوں یہ رشتہ پکا ہوجاتا ہے اور اس کے بعد دعوت کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں لڑکی والے بطور خاص شرکت کرتے ہیں شادی کے چوتھے دن لڑکی کا ماموں آتا ہے جسے لڑکے والے ایک بیل اور بندوق تحفہ میں دیتے ہیں اسی طرح دونوں خاندانوں کے درمیان تحائف کا تبادلہ کچھ دن جاری رہتا ہے حیران کن بات یہ ہے کہ محبت و پیار ہونے پر شادی شدہ خاتون کو بھی کوئی لڑکا بھگا کر لے جائے اور اگر وہ خاتون اپنی رضامندی سے جائے تو اس کے سابقہ شوہر کو اس پہ کوئی اعتراض نہیں بلکہ نیا شوہر سابقہ شوہر کو ڈبل جرمانہ ادا کرتا ہے۔
پیدائش
ان کے ہاں پہلا بچہ پیدا ہونے پر زبردست قسم کی دعوت کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں بکرے اور بیل ذبح کئے جاتے ہیں یہ دعوت لڑکی والوں کے ہاں ہوتی ہے لیکن اس کے تمام تر اخراجات لڑکے والوں کو ادا کرنے ہوتے ہیں اس کے علاؤہ لڑکے والوں کو لڑکی والوں کے تمام رشتہ داروں کو دو ہزار روپے فی کس بھی دینا ہوتے ہیں اگر پہلے بچے کے بعد اگلا بچہ بھی اس جنس کا پیدا ہو تو یہ سب کچھ پھر سے اس موقع پر بھی ہوگا یہ سلسلہ تب جا کر رکتا ہے جب بچہ مخالف سمت کا پیدا ہوگا۔
فوتگی
حالانکہ ان کے مذہب میں خوشی ہی سب کچھ ہے وہ کہتے ہیں جیسے کسی کی پیدائش خوشی کا موقع ہے اسی طرح اس کا مرنا بھی خوشی کا موقع ہے چنانچہ جب کوئی مرتا ہے تو ہزاروں کی تعداد میں مردوزن جمع ہوتے ہیں میت کو ایک دن کے لئے کمیونٹی ہال میں رکھ دیا جاتا ہے اور مہمانوں کے لئے ستر سے اسی بکرے اور آتھ سے دس بیل ذبح کئے جاتے ہیں خوب ہلا گلا کا اہتمام کیا جاتا ہے کسی کی فوتگی پر تیار ہونے والا کھانا خالص دیسی ہوتا ہے اور آخری رسومات کی تقریب کا جشن منایا جاتا ہے اس حوالے سے ان کا عقیدہ ہے کہ مرنے والے کو اس دنیا سے خوشی خوشی روانہ کیا جائے لہذا خوب ہلا گلا اور خوشی منائی جاتی ہے پرانے زمانے میں وہ مردے کو تابوت میں ڈال کر قبرستان رکھ آتے تھے لیکن آج کل دفنانے کا رواج ہے کیلاشی قبیلے میں فوتگی بھی کم سے کم آٹھ سے دس لاکھ اور زیادہ سے زیادہ پینتیس چالیس لاکھ میں پڑتی ہے پہلے پہل تو سب اخراجات فوتگی والے گھر کے ذمہ ہوتے تھے لیکن اب گاؤں والے مل کر کرتے ہیں۔
بشالی (عورتوں کے لئے مخصوص عمارت)
آپ سب کے لئے یہ بات انتہائی حیران کن ہوگی کہ کیلاش کہ ایک سب سے عجیب و غریب روایت کے مطابق یہاں کی خواتین اپنے ایام مخصوصہ میں ان کو گھر سے نکال کر ایک مخصوص عمارت میں منتقل کر دیا جاتا ہے جسے وہاں کی مقامی زبان میں بشالی کہتے ہیں بشالی کو پرگاتا یعنی ناپاک جگہ بھی پکارا جاتا ہے اور اس کی دیوراں کو چھونا یا ہاتھ لگانا منع ہے ہمیں بھی دور سے ہی رستہ بدلنے کا کہا گیا تھا اس کے علاؤہ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی عورت گھر جانے سے پہلے اپنے دس دن بشالی میں ہی گزارتی ہے لیکن وہ مکمل پاک ہونے تک گھر کا واش روم تک استعمال نہیں کر سکتی اسی طرح جب لڑکی بالغ ہوجائے تو اسے گھر میں بال دھونے کی بھی اجازت نہیں۔




