آٹوموبائل اسمبلرز اور پارٹس مینوفیکچررز نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ آئندہ بجٹ کے اعلان سے قبل گاڑیوں کی درآمدی ڈیوٹی میں کمی کے حوالے سے واضح پالیسی کا اعلان کرے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر خان کے ساتھ حالیہ ملاقات میں پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹو پارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز (پاپام) اور پاکستان آٹوموٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے نمائندوں نے حکومت سے پالیسیوں کی وضاحت کا مطالبہ کیا۔
اجلاس میں وزارت صنعت و پیداوار اور انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) کے حکام نے بھی شرکت کی۔
انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر اس طرح کی پالیسی پر عمل درآمد کیا جاتا ہے تو وہ اپنی توجہ مقامی مینوفیکچرنگ سے گاڑیاں درآمد کرنے پر مرکوز کرسکتے ہیں۔
اجلاس 2025-30 کے لیے قومی ٹیرف پالیسی (این ٹی پی) سے متعلق تجاویز کا حصہ تھا، جس پر حکومت یکم جولائی سے عمل درآمد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ پالیسی تجارتی رکاوٹوں کو کم کرے گی اور کسٹمز کے طریقہ کار کو آسان بنائے گی، جس میں اضافی کسٹم ڈیوٹی (اے سی ڈی) کا مرحلہ وار خاتمہ اور ریگولیٹری ڈیوٹیز (آر ڈیز) میں کمی بھی شامل ہے۔
بالآخر صنعتی اور مشینری کی درآمدات پر ڈیوٹی تقریباً 15 فیصد عائد ہوگی اور آٹو سیکٹر 2030 تک مجوزہ کمی کے خلاف ہے۔
اس سے قبل ایک اجلاس میں ایس اے پی ایم نے پاپام سے آٹو پارٹس مینوفیکچررز کے لیے ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کم کرنے کامطالبہ کیا تھا، پاما کے نمائندوں نے بتایا کہ مکمل طور پر بلٹ یونٹس (سی بی یو) ٹیکس گاڑیوں کی کٹیگری پر منحصر 50 سے 100 فیصد کے درمیان ہیں۔
پاپام کے چیئرمین عبدالرحمٰن کے مطابق حکومت سے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر گاڑیاں 15 فیصد پر درآمد کی جاتی ہیں تو پارٹس 0 سے 10 فیصد ڈیوٹی پر درآمد کیے جائیں گے‘۔
’ہماری پریزنٹیشن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت، اسٹیل اور پلاسٹک کے خام مال کی درآمد، مالی لاگت وغیرہ تھائی لینڈ، بھارت، چین، انڈونیشیا اور ویتنام جیسے کلیدی حریفوں کے مقابلے میں مقامی مینوفیکچرنگ کو مہنگا بنا رہی ہے۔
پاپام نے کہا ہے کہ ان حالات میں ملک میں مینوفیکچرنگ کی سہولیات کو برقرار رکھنا قابل عمل نہیں ہے۔ لیکن ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ واضح طور پر ایک پالیسی بیان کرے کیونکہ اس طرح کے معاملات ہر 2-3 سال کے بعد بحث کا موضوع بن جاتے ہیں۔