امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جمعہ کو یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب پاکستان واشنگٹن کے ساتھ محصولات کے تنازع کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت امریکا میں پاکستان کو اپنی برآمدات پر 29 فیصد تک محصولات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
امریکا کے ساتھ پاکستان کے 3 بلین ڈالر کے تجارتی سرپلس نے اسے گذشتہ ماہ اعلان کردہ نئے امریکی ٹیرف اقدامات کے تحت ریڈار پر ڈال دیا ہے۔
عالمی محصولات اور تجارتی توازن کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے امریکا نے سفارتی بات چیت کے لیے 90 دن تک اس کا نفاذ عارضی طور پر معطل کیا تھا۔
جواب میں وزیراعظم شہباز شریف نے 9 اپریل کو اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطح کے جائزہ اجلاس کی ہدایت کی، جس کے نتیجے میں سرکاری عہدیداروں، ممتاز کاروباری شخصیات اور معروف برآمد کنندگان پر مشتمل ایک وفد کو امریکا بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس مشن کا مقصد دو طرفہ تجارتی تعلقات کو بہتر بنانا اور باہمی اقتصادی فائدے کا راستہ تلاش کرنا ہے ۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑ گئی تو کوئی تجارتی معاہدہ نہیں ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ
ادھر جوائنٹ بیس اینڈریوز میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مستقبل کے تجارتی تعلقات کو علاقائی امن سے جوڑتے ہوئے کہا کہ ’ مجھے پاکستان یا بھارت کے ساتھ معاہدہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوگی اگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کرتے ہیں‘۔
بھارت کے ساتھ تجارت پر متوازی پیش رفت
صدر ٹرمپ نے یہ بھی بتایا کہ امریکا بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدے کے قریب ہے، حال ہی میں بھارتی وزیر تجارت پیوش گوئل نے مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے واشنگٹن کا دورہ کیا۔
دونوں فریق جولائی کے اوائل تک ایک عبوری معاہدے کو حتمی شکل دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بھارت کو بھی امریکاکو اپنی برآمدات پر 26 فیصد محصولات کا سامنا ہے ۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جاری مذاکرات کے ایک حصے کے طور پر، بھارت امریکی کمپنیوں کو 50 بلین ڈالر سے زیادہ کے معاہدوں پر دستخط کر سکتا ہے-
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان نے ایک صفر ٹیرف دو طرفہ تجارتی معاہدے کی تجویز پیش کی ہے جس میں منتخب ٹیرف کا احاطہ کیا گیا ہے جو باہمی مفاد کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ پیشکش متعدد شعبوں میں تجارتی چینلز کو وسیع کرنے اور جنوبی ایشیا میں ایک زبردست متبادل کے ساتھ امریکا کو پیش کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
پاک امریکا تجارتی مذاکرات کا پہلا دور شروع
پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریر نے 30 مئی کو ٹیلی فون کے ذریعے ابتدائی بات چیت کی۔ وزارت خزانہ کے مشیر خرم شہزاد نے بات چیت کو ’تعمیری‘ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ دونوں فریقوں نے آنے والے ہفتوں میں تکنیکی سطح پر مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا ۔
وزیرخزانہ کے مشیر خرم شہزاد نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کہا کہ دونوں فریقین نے جلد از جلد ایک کامیاب نتیجے کے لیے مذاکرات کو آگے بڑھانے پر اعتماد کا اظہار کیا ۔
امریکی کمپنیوں کے لیے کان کنی اور سرمایہ کاری کی ترغیبات
وزیر تجارت جام کمال نے انکشاف کیا کہ پاکستان امریکی فرموں کو سرمایہ کاری میں رعایت دینے کی تیاری کر رہا ہے، خاص طور پر کان کنی کے شعبے میں۔ ان ترغیبات میں خاص طور پر معدنیات سے مالا مال صوبہ بلوچستان میں لیز گرانٹ اور مقامی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبے شامل ہوں گے۔
جام کمال نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ ’پاکستان میں کان کنی کی مشینری سے لے کر ہائیڈرو کاربن کے منصوبوں تک، امریکا کمپنیوں کے لیے غیر استعمال شدہ امکانات موجود ہیں‘ ۔
مزید برآں پاکستان امریکا سے درآمدات میں اضافہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، خاص طور پر کپاس اور خوردنی تیل میں، تاکہ گھریلو قلت کو کم کرنے میں مدد ملے۔ پچھلی امریکی انتظامیہ سے ایک اہم تبدیلی میں، جس نے زیادہ تر بھارت پر توجہ مرکوز کی تھی، ٹرمپ انتظامیہ اب پاکستان کو ایک قابل عمل تجارتی شراکت دار کے طور پر تسلیم کرتی دکھائی دیتی ہے ۔
جام کمال نے کہا کہ ’پچھلی امریکی انتظامیہ نے بھارت پر زیادہ توجہ دی ، لیکن اب پاکستان کو ایک سنجیدہ تجارتی شراکت دار کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے‘۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان آئندہ وفاقی بجٹ میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور مسابقت بڑھانے کے لیے محصولات کو بتدریج کم کرے گا۔ امریکا نے ابھی تک ترجیحی شعبوں یا تجارتی رکاوٹوں کی وضاحت نہیں کی ہے، لیکن اسلام آباد باہمی فائدہ مند معاہدے تک پہنچنے کے بارے میں پر امید ہے ۔