اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے مالی سال 2025-26 کے بجٹ کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت مختلف وزارتوں، ڈویژنز اور شعبہ جات کے لیے اربوں روپے کی رقوم مختص کی گئی ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پیش کیا جس کے مطابق آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 17 ہزار 573 ارب روپے لگایا گیا ہے، جبکہ فیڈرل گروس ریونیو کا ہدف 19 ہزار 278 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔
بجٹ میں ایف بی آر کے لیے ٹیکس وصولی کا ہدف 14 ہزار 131 ارب روپے رکھا گیا ہے، جبکہ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5 ہزار 147 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال میں وفاقی حکومت کی خالص آمدنی کا تخمینہ 11 ہزار 72 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ بجٹ میں پرائمری سرپلس کا ہدف 3 ہزار 170 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق، آئندہ مالی سال میں صوبوں کو 8 ہزار 206 ارب روپے دیے جائیں گے۔ اخراجات کی مد میں، قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے 8 ہزار 207 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جو کہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ ہے۔
دفاعی بجٹ 2 ہزار 550 ارب روپے مختص کیا گیا ہے، جو ملک کی دفاعی ضروریات کو پورا کرے گا۔ گرانٹس اور سبسڈی کی مد میں 1 ہزار 928 ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے، جبکہ پینشن کے لیے 1 ہزار 55 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سول حکومت کے اخراجات کے لیے آئندہ مالی سال 971 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔
پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے 1 ہزار ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے، جو ترقیاتی منصوبوں کو فروغ دے گا۔ ہنگامی حالات کے لیے 389 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے تاکہ غیر متوقع حالات کا سامنا کیا جا سکے۔
صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت آئندہ مالی سال میں 8 ہزار 206 ارب روپے منتقل کیے جائیں گے، جبکہ قبائلی اضلاع (ضم شدہ اضلاع) کی ترقی کے لیے 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وفاقی بجٹ میں مختلف وزارتوں اور ڈویژنز کو بھی خطیر فنڈز فراہم کیے گئے ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی ڈویژن کے لیے 4 ارب 79 کروڑ روپے اور نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کے لیے 2 ارب 2 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ خلائی تحقیق کے ادارے سپارکو کے لیے 24 ارب 15 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں، جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن ڈویژن کو 13 ارب 52 کروڑ روپے کی رقم دی گئی ہے۔
اطلاعات و نشریات ڈویژن کے لیے 4 ارب 33 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جبکہ وزارت داخلہ کو 10 ارب 90 کروڑ روپے فراہم کیے جائیں گے۔ پارلیمانی امور ڈویژن کو 3 ارب روپے، جبکہ پٹرولیم ڈویژن کو 71 کروڑ 90 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔ وزارت صنعت و پیداوار کے تحت جاری منصوبوں کے لیے 1 ارب 90 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بین الصوبائی رابطہ ڈویژن کے لیے 1 ارب 13 کروڑ روپے، امور کشمیر و گلگت بلتستان اور سیفران ڈویژن کے لیے 1 ارب 80 کروڑ روپے، اور قانون و انصاف ڈویژن کے لیے 1 ارب 71 کروڑ روپے فراہم کیے گئے ہیں۔ بحری امور ڈویژن کو 3 ارب 36 کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے بجٹ منظوری کے بعد اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا جہاں اس پر تفصیلی بحث متوقع ہے۔ اس بجٹ میں ترقیاتی شعبوں کے ساتھ ساتھ دفاع، داخلہ، تعلیم، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر اہم شعبہ جات کے لیے مالی وسائل فراہم کیے گئے ہیں تاکہ معیشت کی بحالی اور عوامی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنایا جا سکے۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے 8207 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جبکہ وفاقی حکومت کی نیت ریونیو وصولی کا ہدف 11 ہزار 72 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ ٹیکس گیپ کا تخمینہ 55 کھرب روپے ہے، جسے کم کرنے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایف بی آر نے رواں مالی سال 78.4 ارب روپے محصولیات جمع کیں، جبکہ 9.8 ارب روپے کے جعلی ری فنڈ کلیمز کو بھی بلاک کیا گیا ہے۔
بجٹ میں سالانہ ایک کروڑ روپے سے زائد آمدن پر 5 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نان فائلرز کے لیے بینکوں سے رقم نکلوانے پر ٹیکس میں بھی اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ جائیداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں کمی کی گئی ہے۔ اسلام آباد میں اسٹامپ پیپر ڈیوٹی کو 4 فیصد سے کم کرکے 1 فیصد کر دیا گیا ہے تاکہ جائیداد کے لین دین کو سہل بنایا جا سکے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے، جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے بچوں کے لیے سکل ٹریننگ کے وظائف دینے کا فیصلہ بھی بجٹ کا حصہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
پنشن اصلاحات کے تحت ایک سے زائد پنشن ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق، ریٹائرمنٹ کے بعد اگر کوئی فرد دوبارہ ملازمت اختیار کرتا ہے تو اسے تنخواہ یا پنشن میں سے صرف ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ پنشنرز اب تین تین پنشن لینے کے بجائے صرف ایک پنشن کے حقدار ہوں گے۔ اس کے علاوہ، پنشنر کی شریک حیات کے انتقال کے بعد فیملی پنشن کی مدت کو 10 سال تک محدود کر دیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے بجلی کی قیمتوں میں 31 فیصد سے زائد کمی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے عوام کو ریلیف ملے گا۔ ترسیلات زر کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں ترسیلات زر 36 ارب روپے رہی ہیں، جو ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
حکومت نے کم آمدنی والے افراد کے لیے گھروں کی تعمیر کے لیے قرضوں کی فراہمی کا بھی فیصلہ کیا ہے تاکہ متوسط طبقے کو اپنا گھر بنانے میں آسانی ہو۔ بجٹ تجاویز میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ مالیاتی اقدامات اقتصادی استحکام، عوامی فلاح، اور مالی شفافیت کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوں گے۔