سینئر صحافی مرتضیٰ سولنگی نے افغانستان میں جہاد اور انتہا پسندی کے حوالے سے چشم کشا حقائق بے نقاب کرتے ہوئے کہا ہےکہ افغانستان میں افغان بچوں کو جہاد کی جانب راغب کر نے کے لیئے بچپن سے ہی ہتھیاروں کی جانب اور جہاد کی جانب زہن سازی ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحتا امریکی اور مغربی طاقتوں کی اایماء پر کی گئی۔
تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی مرتضی سولنگی نے انکشاف کیا ہے کہ افغانستان میں جہاد کے کارخانوں اور افغان بچوں کو جہاد کی جانب راغب کرنے کے لیئے مغربی طاقتوں اورامریکہ نے ایک سوچی سمجھی سازش اور باقاعدہ منصوبہ بندی سے عوامل کیئے اور افغان بچوں کو جہاد کیجانب راغب کرنے کے لیئے ڈیڑھ کروڑ پرائمری سکولز کی کتابیں اور لٹریچر افغانستان پہنچایا جاتا رہا ، انہوں نے متعلقہ لٹریچر دکھاتےہوئے کہا ہتھیاروں کی جانب راغب کیا جاتا جیسے گنتی سکھانے کے لیئے پرائمری سکولز کئ بچوں کو کلاشنکوف، گرینیڈ، چاقو اور دیگر آلات سے روشناس کروایا جاتا،
پشتو میں پبلش کی گئی میتھ گریڈ ون کی اس بک میں جہاں گنتی کے عمل کو سکھایا گیا چھوٹے بچوں کو وہاں ہتھیاروں کی تعداد سے اس عمل کو بچوں کو سکھایا گیا جیسے ایک کے لیے کلاشنکوف کو ظاہر کیا گیا اور دو کو سکھانے کے لیئے دو چاقو ؤں کی تصویر دکھائی گئی ہے۔اسی طرح سے دیگر ہنسوں کو گرنیڈ اور دیگر ہتھیاروں کی مدد سے بچوں کی اسلحہ اور ہتھیاروں کی جانب ایک سوچی سمجھی سازش سے زہن سازی کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جہاد کے لگائے گئے کارخانوں کی امریکہ اور مغربی طاقتوں بھر پور سپورٹ حاصل رہی اورانہی کی ایماء پر یہ عوامل افغان بچوں میں سرایئت کیئے گئے۔ سینئر صحافی مرتضیٰ سولنگی نے انکشاف کیا کہ امریکہ کی افغانستان میں مداخلت کی بنیادی وجہ روس کے خلاف جارحیت پیدا کرنا تھا تاکہ امریکہ روس سے اپنی ویت نام جنگ کا بدلہ لے سکے اور امریکی قیادت افغانستان کو روس کا ویتنام بنانا چاہتا تھا،۔
ان مقاصد کے پیشِ نظر امریکہ نے افغانستان میں جہاد اور ہتھیاروں کی زہن سازی کیساتھ ایک نسل کو پروموٹ کیا تاکہ روس کےخلاف اپنے عزائم کو پورا کیا جا سکے۔ اسی طرح سے انہوں نے کہا کہ دیگر مثالوں سے افغان بچوں کو ہتھاروں سے متعلق شوق پیدا گیا اور انہیں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت دہشت گردی اور جہاد کی جانب لایا گیا اور بعد ازاں یہ الزامات پاکستان پر عائد کیئے جاتے رہے کہ پاکستان جہاد کلچر کو فروغ دیتا رہا ہے اور بعد ازاں انہی بچوں کو عظیم جنگجوؤں سے تعبیر کر کے کہا جاتا رہا کہ کیسے یہ عظیم جنگجو ایک شیطانی ایمپائر سے نبر آزما ہو گئے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن سے پاکستان کے دورے کے دوران ایک مرتبہ یہ اعتراف بھی کیا کہ دہشت گردی کے حوالے سے ہم سب یکساں زمہ دار ہیں۔اور آج امریکی صدر ٹرمپ ان عوامل کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ان ماضی کی غلطیوں کو درست کیا جا سکے۔ انہوں نے ایک امریکی تھامس گوٹیا کی مثال سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ 60 کی دہائی میں یہ امریکی افغانستان آئے اور انہیں بعد ازاں افغان بچوں کی جہاد اور ہتھیاروں کی جانب زہن سازی کے لیئے استعمال کیا جا تا رہا۔
انہیں امریکی حکومت کی جانب سے لاکھوں ڈالر دیئے گئے اور افغان اسٹڈی سینٹر کی مدد سے افغانستان میں ڈیڑھ کروڑ کتابیں چھاپی گئیں اور انہیں افغان بچوں کی زہن سازی کے لیئے استعمال کیا گیا اور بچوں کی ایسے زہن سازی کی گئی کہ روسی کفار ہیں اور ہمیں مسلمان ہونے کے ناطے ان کے خلاف جہاد کرنا ہے۔
اس طرح سے افغانستان میں جہاد کے کارخانے امریکہ اور مغربی طاقتوں کی جانب سے لگائے گئے اس ضمن میں انہوں سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے روس کے خلاف اپنے عزائم کی کامیابی کے لیئے کیسے افغانستان میں جہادی کلچر کو پروان چڑھایا لیکن بعد ازاں یہ سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا گیا۔
انہوں نےکہا کہ اس خطے میں انتہا پسندی کا بیچ خود مغرب نے بویا تھا لیکن اس سب کا خمیازہ پاکستان کو بھرنا پرا، کیونکہ بعد میں انتہا پسندئ کے خلاف جنگ میں پاکستان کے 80 ہزار لوگ شہید ہوئے اور پاکستان کو 150 بلین ڈالر کا نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا۔