امریکا کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعدایرانی حکام نے آج صبح آبنائے ہرمز بند کرنے کا اعلان کیا تھا اور اب ایرانی پارلیمنٹ نے باضابطہ طور پر آبنائے ہرمز بند کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
آبنائے ہرمز خلیجِ فارس اور خلیجِ عمان کو ملانے والا ایک اہم سمندری راستہ ہے، جہاں سے دنیا کا تقریباً 20 فیصد خام تیل اور 5 فیصد ایل این جی گزرتی ہے۔
آبنائے ہرمز کی چوڑائی محض 33 کلومیٹر ہے اور اس کے ایک جانب خلیجِ فارس اور دوسری جانب خلیجِ عمان واقع ہے،سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور ایران سے نکلنے والا تیل اسی گزرگاہ سے دنیا بھر میں پہنچتا ہے، جو عالمی توانائی کی فراہمی کے لیے ایک نہایت اہم راستہ سمجھا جاتا ہے۔
عالمی رپورٹس کے مطابق گزشتہ سال روزانہ تقریباً 2 کروڑ بیرل تیل آبنائے ہرمز سے گزر کر دنیا کو سپلائی ہوتا تھا جو دنیا کی کل کھپت کا 20 فیصد بنتا ہے۔
ہر مہینے تقریباً 3,000 بحری جہاز اس گزرگاہ سے گزرتے ہیں،آبنائے ہرمز بند ہونے سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہو سکتا ہے، جو دنیا کے کئی ممالک میں مہنگائی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران اسرائیل جنگ کی وجہ سے خام تیل کی قیمتوں میں پہلے ہی 13 فیصد اضافہ ہو چکا ہے،دفاعی اور معاشی ماہرین آبنائے ہرمز کو نہ صرف ایک سمندری راستہ بلکہ عالمی توانائی کی شہ رگ قرار دیتے ہیں جس کی بندش دنیا بھر میں توانائی کے بحران اور اقتصادی عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔
اگر آبنائے ہرمز بند ہو جاتی ہے تو بھارت پر اس کا شدید اثر پڑے گا بھارت دو تہائی خام تیل اور تقریباً آدھی ایل این جی آبنائے ہرمز کے راستے درآمد کرتا ہے۔
اس لیے کسی بھی بندش یا رکاوٹ سے بھارت کو بڑے نقصان کا سامنا ہوگا، اس راستے سے بھارت کی تقریباً 70 فیصد خام تیل کی درآمدات اور 40 فیصد ایل این جی گزرتی ہیں۔
صرف 2024 میں قطر سے بھارت کو تقریباً 10 ملین ٹن ایل این جی فراہم کی گئی، آبنائے ہرمز کی بندش بھارت کے توانائی کے تحفظ کو خطرے میں ڈال سکتی ہے اور اس سے ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔