ویب ڈیسک۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم X (سابقہ ٹوئٹر) پر AI چیٹ بوٹ Grok سے ایک صارف نے پوچھا کہ کون سے بھارتی سیاستدان امریکہ میں داخلے پر پابندی کا شکار رہا۔ صارف ترن گوتم نے اپنی پوسٹ میں Grok کو ٹیگ کرتے ہوئے اس پابندی کی وجہ جاننے کی درخواست کی، جس پر دیگر سوشل میڈیا صارفین نے طنزیہ انداز میں مختلف اشارے دینا شروع کیے۔
Grok نے جواب دیتے ہوئے کہا:
“نریندر مودی، سابق وزیرِ اعلیٰ گجرات اور موجودہ بھارتی وزیرِ اعظم، پر 2005 سے 2014 تک امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد تھی۔”
Grok نے پابندی کی وجہ بتاتے ہوئے مزید لکھا:
“یہ پابندی 2002 کے گجرات فسادات میں ان کے مبینہ کردار کی بنیاد پر لگائی گئی تھی، جہاں ایک ہزار سے زائد افراد، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی، مارے گئے تھے۔ یہ امریکی قانون کے تحت مذہبی آزادی کی شدید خلاف ورزیوں میں ملوث افراد پر پابندی کی بنیاد پر عائد کی گئی۔”
Hey @grok. Which Indian politician was banned from entering the USA and why?
امریکی محکمہ خارجہ نے 2005 میں نریندر مودی کے امریکہ میں داخلے پر اس بنیاد پر پابندی لگائی کہ وہ 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث رہے۔ یہ فسادات اس وقت ہوئے جب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔
Genocide Watch کی رپورٹ کے مطابق، نریندر مودی نے پولیس کو مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو نہ روکنے کا حکم دیا، جس کے باعث انہیں عالمی سطح پر “قصائیِ گجرات” (Butcher of Gujarat) کے لقب سے جانا جانے لگا۔
27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس میں آگ لگنے سے 59 ہندو کار سیوک ہلاک ہوئے، جس کے بعد ہندو انتہاپسند تنظیموں، جیسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS)، وشو ہندو پریشد (VHP)، اور بجرنگ دل نے مسلمانوں کے خلاف منظم حملے شروع کر دیے۔ ان گروہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ “مسلم دہشت گردی” کے خلاف دفاع کر رہے ہیں — یہ وہی جواز ہے جو مودی بعد میں پاکستان اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے رہے۔
فسادات کے دوران ہندو ہجوم کو ریاستی پولیس کی جانب سے کھلی چھوٹ ملی، اور مودی کی قیادت میں ریاستی حکومت پر الزام لگایا گیا کہ وہ ان حملوں کی پشت پناہی کر رہی تھی۔ Genocide Watch کی رپورٹ کے مطابق، فسادات کے دوران کم از کم 250 مسلمان خواتین اور بچیوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد زندہ جلا دیا گیا، جب کہ ان کے خاندان کے مردوں کو قتل کر دیا گیا۔
آؤٹ لک میگزین کے مطابق، فسادات سے کئی ماہ قبل ہی مسلمان علاقوں، ووٹر لسٹوں، اور کاروباروں کی نشاندہی کا عمل شروع کر دیا گیا تھا، جس سے حملے کی منصوبہ بندی اور منظم نوعیت کا پتا چلتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مقامی اور ریاستی سطح کے سیاستدان ہجوم کی قیادت کرتے، پولیس کو قابو میں رکھتے، اور ہتھیاروں کی تقسیم منظم کرتے دیکھے گئے۔
بالآخر، بھارتی سپریم کورٹ نے ، بی جے پی حکومت کے اثر و رسوخ میں ، نریندر مودی کو الزامات سے بری کر دیا، جب کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور مقامی سماجی کارکنوں نے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔