سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بعد پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جارحیت کے نئے سلسلے کا آغاز سامنے آگیا

سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بعد پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جارحیت کے نئے سلسلے کا آغاز سامنے آگیا

سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کیے جانے کے باوجود بھارت کی جانب سے پاکستان کے حصے کے پانیوں پر 6 ہائیڈل ‘اسٹریٹجک’ منصوبوں میں سے ایک کی منظوری دینے کا فیصلہ مودی حکومت کی یکطرفہ اور علاقائی استحکام کو نظر انداز کرنے اور پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کا واضح ثبوت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت کی آبی جارحیت، پاکستانی ڈیم ڈیڈ لیول کے قریب، پنجاب میں پانی کے بہاؤ میں 15 فیصد کمی آ گئی ہے، بھارتی میڈیا کا پروپیگنڈا

آزاد ڈیجیٹل کی ریسر چ کے مطابق بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جموں کشمیر میں پن بجلی کے ایک منصوبے کی منظوری دینے پر غور کر رہی ہے جسے وہ 6 اسٹرٹیجک ہائیڈرو پاور ڈیولیپمنٹ منصوبوں میں سے ایک ہے۔

آزاد ڈیجیٹل کی ریسرچ کے مطابق پاکستان کے لیے یہ صرف ماحولیاتی یا تکنیکی مسئلہ نہیں ہے، یہ قومی بقا اور خودمختاری کا معاملہ ہے۔

ریسرچ کے مطابق سندھ طاس معاہدے کی نام نہاد معطلی کے تحت یہ منصوبہ کوئی قانونی تصور نہیں ہے، یہ پاکستان پر آبی جارحیت اور ہائیڈرو تسلط قائم کرنے کے لیے بھارت کا تیار کردہ بہانہ ہے۔ یہ ڈیم منصوبے بجلی پیدا کرنے کے بارے میں نہیں ہیں بلکہ یہ پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا بھارتی منصوبہ ہے۔

مزید پڑھیں:جنگ نہیں چاہتے، بھارت نے پانی روکا تو کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوگا:بلاول بھٹوزرداری

ریسرچ کے مطابق دریائے سندھ کا نظام پاکستان کی لائف لائن ہے جس کی زراعت، صنعت اور پینے کے پانی کا 80 فیصد اس پر منحصر ہے۔ قدرتی بہاؤ میں کسی بھی قسم کی تبدیلی، خاص طور پر جموں کشمیر جیسے متنازع علاقوں میں، پاکستان کی طرف سے ایک دشمنانہ اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، پاکستان اعلان کر چکا ہے کہ بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کو جنگی کارروائی کے طور پر دیکھا جائے گا۔

دریائے سندھ، جہلم اور دریائے چناب پر بھارت کی بلا روک ٹوک تعمیرات ہائیڈرولوجیکل جنگ کے مترادف ہیں۔ ہر نئے منصوبے کے ساتھ نئی دہلی پاکستان کے لیے پانی کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کے قریب پہنچ رہا ہے جو غذائی عدم تحفظ، معاشی تباہی اور علاقائی عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔

واضح رہے کہ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت کی کمیٹی جموں کشمیر میں 1856 میگاواٹ کے ساول کوٹ ہائیڈرو پروجیکٹ کے لیے جنگلات کی منظوری پر غور کر رہی ہے، جو معاہدے کے تحت بھارت کے اسٹریٹجک ہائیڈرو پاور منصوبوں کا حصہ ہے۔

میڈیا کے مطابق پن بجلی منصوبے کی منظوری ان 6 اسٹریٹجک ہائیڈرو پاور ڈیولپمنٹ منصوبوں میں سے ایک ہے جس کا مقصد سندھ طاس کے پانی کے استعمال کو بہتر بنانا ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ معاہدہ معطل ہے۔

رام بن میں 1856میگاواٹ کا ساول کوٹ پروجیکٹ، جس کی 2018 میں منظوری ملی تھی، 6 سال سے زیادہ عرصے سے جنگلات کی کٹائی کی منظوری کا انتظار کر رہا ہے۔ بھارت کی مرکزی وزارت ماحولیات کی پریویش ویب سائٹ پر موجود دستاویزات کے مطابق، منگل کو جنگلات کی کٹائی کی منظوری کے لیے اس پروجیکٹ پر غور کیا گیا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق توقع ہے کہ اس منصوبے پر ان کا فیصلہ جلد ہی میٹنگ کے منٹس میں شائع کیا جائے گا۔

بھارت نے 22 اپریل کو پہلگام میں فالس فلیگ کے حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے ایک دن بعد پاکستان کے ساتھ عالمی بینک کی ثالثی میں ہونے والا سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا تھا۔ اس اقدام سے نئی دہلی کی جانب سے 1960 کے معاہدے کے تحت پاکستان کو مختص دریاؤں پر پن بجلی کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے کوششوں میں تیزی آئی ہے۔

آزاد ڈیجیٹل کی ریسرچ رپورٹ کے مطابق اگرچہ بھارت کے سرکاری عہدیداروں اور سیاسی رہنماؤں نے اعلان کیا ہے کہ بھارت کے حصے کا پانی پاکستان میں بہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، لیکن بھارت کے پاس فی الحال ڈیموں یا بیراجوں جیسے کوئی بڑے بنیادی ڈھانچے نہیں ہیں جو اس وقت پانی کا ذخیرہ کرسکیں۔

آزاد ڈیجیٹل کی ریسرچ کے مطابق بھارت نے جموں کشمیر کے خطے میں متعدد منصوبوں کی منصوبہ بندی کی ہے تاکہ ممکنہ طور زیادہ سے زیادہ دریاؤں کے پانی کو ذخیرہ کیا جا سکے۔ ساول کوٹ پروجیکٹ کو جیولوجی اینڈ مائننگ ڈپارٹمنٹ سے پہلے ہی کلیئرنس مل چکی ہے۔

نیشنل ہائیڈرو الیکٹرک پاور کارپوریشن (این ایچ پی سی) پروجیکٹ میں مہور، رام بن، بٹوٹ اور ادھم پور ڈویژن میں 847.17 ہیکٹر جنگلاتی زمین اور 554.18 ہیکٹر غیر جنگلاتی زمین کا رخ موڑنا شامل ہے۔ رن آف دی ریور اسکیم، جس کا تخمینہ 20,000 کروڑ روپے سے زیادہ لگایا گیا ہے، دریائے چناب کے بہاؤ کو بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے تاہم اس کے پیچھے معرکات پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کے ہیں۔

بنیادی طور پر 1999 میں جموں کشمیر حکومت کی طرف سے ساولکوٹ کنسورشیم کو الاٹ کیا گیا یہ منصوبہ 2 دہائیوں سے زیادہ عرصے تک غیر فعال رہا اور اس میں بہت کم پیش رفت ہوئی۔ دریائے چناب اس وقت 3 آپریشنل ہائیڈرو پروجیکٹس کی میزبانی کر رہا ہے، کشتواڑ میں 390 میگاواٹ کا دلہاستی پاور اسٹیشن، رام بن میں 890 میگاواٹ کا بغلیار پروجیکٹ اور ریاسی میں 690 میگاواٹ کا سلائی ہائیڈرو پروجیکٹ ان منصوبوں میں شامل ہیں۔

بھارت کے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی صدارت میں 25 اپریل کو ایک اعلیٰ سطح کی میٹنگ کے بعد رواں ہفتے ایف اے سی پر تبادلہ خیال کیا ، جس کے بعد وزارت جل شکتی اور این ایچ پی سی کے حکام نے زیر تعمیر تمام ہائیڈرو پاور پروجیکٹس میں تیزی لانے کے لیے کام کرنا شروع کر دیاہے۔

جیسا کہ ایچ ٹی نے 5 مئی کو رپورٹ کیا کہ  بھارت دریائے سندھ پر نئے منصوبوں سے تقریباً 12 گیگا واٹ اضافی پن بجلی پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جس کے لیے فزیبلٹی اسٹڈیز کا حکم دیا گیا ہے۔ ان منصوبوں میں پکل دل (1000 میگاواٹ)، رتلے (850 میگاواٹ)، برسر (800 میگاواٹ)، کیرو (624 میگاواٹ) اور کرتھائی 1 اور 2 (1320 میگاواٹ) شامل ہیں۔

ادھر بھارت کشمیر سے گزرنے والے دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کی شرح میں کمی کی وجہ سے پانی کی تقسیم کے معاہدے پر دوبارہ بات چیت کا مطالبہ کر رہا ہے۔ حالیہ سائنسی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سندھ طاس کے مشرقی اور مغربی معاون دریاؤں کو مختلف طریقے سے متاثر کر رہی ہے، مشرقی دریاؤں کے 2030 تک بھر جانے کی توقع ہے جبکہ مغربی دریا 2070 تک بھرنے تک پہنچ سکتے ہیں۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *