ویب ڈیسک۔ خیبر پختونخوا حکومت نے سوات میں سیلابی ریلوں سے ہونے والے جانی نقصانات اور جاری ریسکیو آپریشن کی ابتدائی رپورٹ جاری کر دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق آج صبح ساڑھے آٹھ بجے سوات بائی پاس پر واقع “جی قربان ہوٹل” کے ساتھ 18 افراد اچانک سیلابی ریلے میں پھنس گئے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو آپریشن فوری طور پر شروع کر دیا گیا۔
ان 18 افراد میں سے 3 کو بحفاظت ریسکیو کیا گیا، جب کہ ریسکیو اہلکاروں، ضلعی انتظامیہ اور مقامی افراد کے مشترکہ آپریشن سے 6 لاشیں نکالی گئیں۔ 9 افراد تاحال لاپتہ ہیں جن کی تلاش ضلع ملاکنڈ کی حدود تک جاری ہے۔ ان افراد کا تعلق ڈسکہ (پنجاب) اور مردان سے ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے جاں بحق ہونے والے پنجاب کے شہریوں کے لیے معاوضوں کا اعلان کیا ہے۔ واقعے کی تحقیقات کے لیے چیئرمین وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔
سوات بائی پاس پر ریلیکس ہوٹل کے مقام پر بھی 10 سے زائد افراد کے ڈوبنے کی تصدیق ہوئی ہے۔ ریسکیو ٹیمیں موقع پر موجود ہیں اور سرچ آپریشن جاری ہے۔ انگرو ڈھیری سے 3 لاشیں برآمد ہو چکی ہیں۔
امام ڈھیری کے مقام پر 22 افراد پھنس گئے تھے، جنہیں بحفاظت ریسکیو کر لیا گیا۔ غالیگے میں 7 افراد پھنسے، جن میں سے ایک کی لاش برآمد ہوئی جبکہ باقیوں کی تلاش جاری ہے۔ مانیار اور پنجیگرام میں بھی متعدد افراد کے پھنسنے کی اطلاع ہے، جہاں ریسکیو کارروائیاں جاری ہیں۔
برہ باما خیل مٹہ میں 20 سے 30 افراد کو بحفاظت نکال لیا گیا۔ مجموعی طور پر دریائے سوات کے مختلف مقامات پر 75 افراد پھنسے تھے، جن میں سے 58 کو زندہ بچا لیا گیا، 8 کی لاشیں برآمد ہوئیں اور 10 افراد تاحال لاپتہ ہیں۔
اس وقت سوات کے 8 مقامات پر 105 ریسکیو اہلکاروں پر مشتمل ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔ سیلابی ریلوں کی شدت کے باعث ریسکیو ٹیموں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
دریائے سوات کے اطراف تمام ہوٹلز، ریسٹورنٹس اور تجارتی سرگرمیاں بند کر دی گئی ہیں۔ مون سون بارشوں کے باعث دریاؤں میں دفعہ 144 کے تحت تفریحی سرگرمیوں پر پہلے سے پابندی عائد ہے۔
صوبائی حکومت نے سیاحوں اور عوام کو ریور بیڈز میں جانے سے روکنے کے لیے آگاہی مہم بھی چلائی ہے اور ایک بار پھر اپیل کی ہے کہ عوام اور سیاح دریاؤں میں جانے سے گریز کریں اور احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کریں۔