امریکی جنرل نے ایک بریفنگ کے دوران امریکی سینیٹرز کو بتایا ہے کہ امریکی فوج نے گزشتہ ہفتے ایران کی سب سے بڑے جوہری تنصیبات میں سے ایک پر بنکر بسٹر بموں کا استعمال نہیں کیا کیونکہ یہ جگہ اتنی گہری ہے کہ ممکنہ طور پر یہ بم مؤثر نہیں ہو تے۔
جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل ڈین کین نے امریکی سینیٹرز کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ امریکی فوج نے وسطی ایران میں اصفہان کے مقام پر میسیو آرڈننس پینیٹر بم کا استعمال کیوں نہیں کیا؟۔ امریکی حکام کا خیال ہے کہ اصفہان کے زیر زمین ایٹمی ڈھانچے میں ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کا تقریباً 60 فیصد موجود ہے، جس سے ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
امریکی بی ٹو بمبار طیاروں نے ایران کے فورڈو اور نطنز جوہری تنصیبات پر ایک درجن سے زیادہ بنکر بسٹر بم گرائے۔ لیکن اصفہان کو صرف ایک امریکی آبدوز سے داغے گئے ٹاما ہاک میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
امریکی سینیٹرز کو خفیہ بریفنگ کین، وزیر دفاع پیٹ ہیگزیتھ، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلف نے دی۔ جنرل کین کے ایک ترجمان نے تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کانگریس کو چیئرمین جنرل ڈین کین کی خفیہ بریفنگ پر تبصرہ نہیں کرسکتے ہیں۔
بریفنگ کے دوران ریٹکلف نے قانون سازوں کو بتایا کہ امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کا اندازہ ہے کہ ایران کے افزودہ جوہری مواد کا بیشتر حصہ اصفہان اور فورڈو میں دفن ہے، جس پر بنکر بسٹر بم نہیں گرائے جا سکے۔
ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے بریفنگ کے بعد سی این این کو بتایا کہ ایران کی کچھ جوہری صلاحیتیں ’اتنی زیر زمین ہیں کہ ہم ان تک کبھی نہیں پہنچ سکتے نہ ان تک بنکر بسٹر بم پہنچ سکتا ہے۔ لہٰذا ان کے پاس یہ صلاحیت اب بھی موجود ہے کہ انہوں نے جو کچھ بچایا ہے اسے ان علاقوں میں منتقل کر سکتے ہیں جہاں امریکی بمباری کی کوئی صلاحیت نہیں ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق امریکی حملوں کے ایک روز بعد ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے پیش کیے گئے ابتدائی جائزے میں کہا گیا تھا کہ اس حملے نے ملک کے جوہری پروگرام کے بنیادی اجزا بشمول افزودہ یورینیم کو تباہ نہیں کیا اور ممکنہ طور پر اس پروگرام کو صرف چند ماہ پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ایران نے حملے سے پہلے افزودہ یورینیم میں سے کچھ کو ان مقامات سے باہر منتقل کر دیا ہو۔
ٹرمپ حکام نے رواں ہفتے قانون سازوں کو بریفنگ دیتے ہوئے ایران کے پہلے سے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کو بالائے طاق رکھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کو ایک بار پھر دعویٰ کیا ہے کہ امریکی فوجی آپریشن سے قبل 3 ایرانی مقامات سے کچھ بھی منتقل نہیں کیا گیا تھا۔
تاہم ریپبلکن قانون سازوں نے خفیہ بریفنگ کے دوران اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکی فوجی حملوں سے ایران کے تمام جوہری مواد کا خاتمہ نہیں ہوا ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا فوج کے مشن کا حصہ نہیں ہے۔
ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن رکن مائیکل میک کول نے سی این این کو بتایا کہ ’ان تنصیبات میں افزودہ یورینیم موجود ہے، لیکن یہ ارادہ یا مشن نہیں تھا۔ ’میری سمجھ ہے کہ اس میں سے زیادہ تر اب بھی موجود ہے. لہٰذا ہمیں ایک مکمل اکاؤنٹنگ کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ ایران کو براہ راست ہمارے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا، تاکہ (انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی) وہاں موجود افزودہ یورینیم کے ہر اونس کا حساب دے سکے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ ملک سے باہر جا رہا ہے، میرے خیال میں یہ ایٹمی سہولیات میں ہے۔
اس مشن کا مقصد ان کے جوہری پروگرام کے بعض مخصوص پہلوؤں کو ختم کرنا تھا۔ انہیں ختم کر دیا گیا، جی او پی کے نمائندے گریگ مرفی نے سی این این کو بتایا کہ جوہری مواد سے چھٹکارا حاصل کرنا مشن کا حصہ نہیں تھا۔
جنوبی کیرولائنا سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ ایران کی 900 پاؤنڈ انتہائی افزودہ یورینیم کہاں موجود ہے، لیکن یہ وہاں کے اہداف کا حصہ نہیں تھی۔ ایٹمی تنصیبات کو ختم کر دیا گیا تھا، اب کوئی بھی انہیں جلد استعمال نہیں کرسکتا ہے۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی اے کے ابتدائی جائزے میں کہا گیا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات کے زمین سے اوپر کے ڈھانچے کو معمولی سے شدید نقصان پہنچا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نقصان سے ایران کے لیے زیر زمین موجود افزودہ یورینیم تک رسائی بہت مشکل ہو سکتی ہے۔
کنیکٹیکٹ سے ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے مرفی نے سی این این کو بتایا کہ ان حملوں سے ان 3 تنصیبات کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ لیکن ایران کے پاس اب بھی جوہری پروگرام کو دوبارہ قائم کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور اگر ان کے پاس اب بھی وہ مواد اور سینٹری فیوجز موجود ہیں تو امریکی حملوں سے یہ پروگرام سالوں نے بلکہ مہینوں پیچھے گیا ہے، ایران جلد ایٹم بم بنا سکتا ہے۔