مودی کی اسلام مخالف پالیسیوں کا تسلسل، بھارتی مسلمان اور کشمیری زیرعتاب

مودی کی اسلام مخالف پالیسیوں کا تسلسل، بھارتی مسلمان اور کشمیری زیرعتاب

مودی حکومت کی اسلام مخالف پالیسیوں نے بھارت میں مسلمانوں اور کشمیریوں کے لیے زندگی مزید مشکل بنا دی ہے ، مذہبی آزادی پر پابندیاں، مساجد کی بندش، علما کی نظربندی اور کشمیر میں اضافی فوجی تعیناتی جیسے اقدامات بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی عکاسی کرتے ہیں،  بین الاقوامی ادارے اور ماہرین اسے بھارت کی جمہوریت اور سیکولرازم کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دے رہے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر (IIOJK) میں مسلمانوں کی مذہبی اور شہری آزادیوں پر نئی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں، ان اقدامات کی نگرانی مودی حکومت کے وفادار لیفٹیننٹ گورنر کے تحت کی جا رہی ہے، جو اس کی اسلاموفوبک پالیسیوں کا واضح عکس ہیں۔

امر ناتھ یاترا کی سیکیورٹی کے نام پر ہزاروں اضافی بھارتی فوجیوں کو وادی کشمیر میں تعینات کر دیا گیا ہے، جو کشمیری مسلمانوں پر مزید دباؤ ڈالنے اور ان کی روزمرہ زندگی محدود کرنے کی کوشش تصور کی جارہی ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق امرناتھ یاترا 3 جولائی سے شروع ہو کر 9 اگست تک جاری رہے گی، اس کے لیے بھارتی حکومت نے تقریباً 1 لاکھ اضافی فوجی وادی میں بھیج دیے ہیں۔

سری نگر سے جموں جانے والی شاہراہوں کو گھیرے میں لے لیا گیا ہے اور ان راستوں پر نشانہ باز (snipers) تعینات کیے گئے ہیں، یاتریوں کی نگرانی ڈرونز کے ذریعے کی جائے گی، جبکہ مسلح بھارتی فوجی کشمیری عوام کی آزادیوں پر مسلسل کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہیں۔

شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور NRC جیسے اقدامات صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے متعارف کرائے گئے

یہ بھی پڑھیں: پراگ جین کی بطور را چیف تقرری ، خطے میں استحکام یا بھارت کی نئی مہم جوئی؟

مودی حکومت کی ہندو قوم پرست پالیسیوں کے باعث کشمیری مسلمانوں کو ان کے بنیادی مذہبی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے جس میں جمعہ کی نمازیں اور عید کے اجتماعات اکثر اوقات منسوخ یا محدود کیے جاتے ہیں۔

5 اگست 2019 کے بعد سے حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق سمیت کئی علما کو عید کی نماز پڑھانے سے روکا گیااور سری نگر کی مرکزی جامع مسجد اور عید گاہ کو طویل عرصے تک بند رکھا گیا ہے۔

کشمیر میں بھارتی فوج نے بہت سے ممتاز اسلامی اسکالرز کو سالوں سے نظر بند رکھا ہے، جس سے وادی میں مذہبی سرگرمیاں تقریباً مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جارحانہ اور جابرانہ اقدامات مذہبی آزادی کی مکمل نفی ہیں اور بھارت کی ریاستی سطح پر جاری مسلم دشمنی کی علامت ہیں۔

امر ناتھ یاترا کی آڑ میں کشمیر کی بڑھتی ہوئی فوجی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ مودی حکومت کشمیر مسئلے کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کی خواہاں نہیں،  اس کے برعکس، وہ وادی کے عوام کے لیے حالات کو مزید مشکل بنا رہی ہے۔

مودی کی اسلام مخالف پالیسیوں پر ایک بار پھر تنقید

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی (BJP) پر ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف نفرت اور امتیازی سلوک کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

معروف بھارتی مورخ رام چندر گوہا نے کہا ہے کہ بی جے پی کی مسلم دشمن سوچ صرف باتوں تک محدود نہیں، بلکہ حکومت کے اقدامات سے صاف ظاہر ہوتی ہے ، مودی، ان کے وزرا، وزیر داخلہ اور بی جے پی کی سوشل میڈیا ٹیم مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں سرگرم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کو مسلسل (ہجوم کے ہاتھوں قتل) کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اور اکثر ان واقعات کے مجرموں کو سزا نہیں دی جاتی ، مسلمانوں کو بغیر نوٹس کے گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے، ان کے مکانات بلڈوز کیے جا رہے ہیں، ووٹر لسٹ سے ان کے نام نکالے جا رہے ہیں، اور متنازع قوانین کے ذریعے ان کی شہریت چھینی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : سیکولر بھارت خطرے میں، راہول گاندھی نے آر ایس ایس ،بی جے پی کے عزائم بے نقاب کردیے

بی جے پی کے حامیوں کی جانب سے آن لائن نفرت انگیز تقاریر میں بھی اضافہ ہوا ہے،  کئی بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارت میں اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی محرومی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اگرچہ بھارتی حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ تمام رجحانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بی جے پی حکومت جان بوجھ کر بھارت کی سیکولر شناخت کو ختم کر کے ملک کو “ہندو توا” ریاست میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔

گوہا نے خبردار کیا کہ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو اس سے ملک کے سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچے گا، جو صرف اقلیتوں ہی نہیں بلکہ پوری بھارتی سوسائٹی کے لیے نقصان دہ ہوگا۔

دہلی یونیورسٹی میں اسلام، پاکستان اور چین سے متعلق کورسز ختم

بھارت میں نظریاتی سنسرشپ کے بڑھتے ہوئے رجحان کا ایک اور مظہر سامنے آیا ہے، جہاں دہلی یونیورسٹی نے سیاسیات (پولیٹیکل سائنس) کے نصاب سے اسلام، پاکستان اور چین سے متعلق تعلیمی کورسز ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق، یونیورسٹی کی پوسٹ گریجویٹ سطح کے کئی اہم کورسز جیسےاسلام اور بین الاقوامی تعلقات، پاکستان اور دنیا، پاکستانی ریاست و سماج ، چین سے متعلق مطالعے کو نصاب سے ہٹا دیا جائے گا۔

یہ فیصلہ مبینہ طور پر یونیورسٹی کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے کیا، جس نے ان موضوعات کو نصاب سے نکالنے کی ہدایت دی۔ اس کے ساتھ ساتھ وائس چانسلر نے بھی پاکستان سے متعلق تفصیلی مواد کو نصاب سے نکالنے کی سفارش کی۔

یونیورسٹی کے کئی اساتذہ نے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی ہے اور اسے سیاسی بنیادوں پر کیا گیا فیصلہ اور علمی آزادی پر قدغن قرار دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : 22 منٹ کی فتح‘ کا افسانوی بیانیہ: مودی آپریشن سندور کی حقیقت چھپانے میں ناکام

یہ تبدیلی بی جے پی حکومت کی اس وسیع تر حکمت عملی کا حصہ سمجھی جا رہی ہے، جس کے تحت اسکول اور یونیورسٹی کے نصاب کو پارٹی کے نظریاتی بیانیے کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بھارت میں مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف جاری امتیازی پالیسیوں نے نہ صرف بھارت  کے اندر سماجی ہم آہنگی کو متاثر کیا ہے بلکہ بھارت کی عالمی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے، مذہبی آزادی، انسانی حقوق اور جمہوریت کے جو دعوے بھارت کی پہچان سمجھے جاتے تھے، وہ آج شدید سوالات کی زد میں ہیں ۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *