بھارت میں بڑھتی ہوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور تشدد کے واقعات کے باعث گلوبل ٹارچر انڈیکس کی حالیہ رپورٹ میں بھارت کو ” خطرناک ترین ” ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات نے اسے عالمی سطح پر تشویش کا باعث بنا دیا ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت میں مسلمانوں، کشمیریوں اور دیگر اقلیتی گروپوں کے خلاف ریاستی سطح پر ہونے والے مظالم کو اجاگر کر رہے ہیں ، عالمی ادارے اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور بھارت کی حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اپنے اقدامات پر نظر ثانی کرے۔
ورلڈ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچر (WOAT) کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، ریاستی سطح پر تشدد کو اجاگر کیا گیا ہے، پولیس کی بربریت، جبری اعترافات، حراست میں اموات اور پسماندہ طبقات کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
آزاد ریسرچ کے مطابق گلوبل ٹارچر انڈیکس جو سات اہم ستونوں پر ممالک کا جائزہ لیتا ہے، جیسے سیاسی عزم، پولیس کا رویہ، متاثرین کے حقوق اور شہری آزادی، بھارت کو “زیادہ خطرہ” والے زمرے میں شامل کرتا ہے، جو کئی دوسرے ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ ہے، اس کے برعکس، یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک “کم خطرہ” والے علاقوں میں ہیں کیونکہ وہاں مضبوط قانونی تحفظات اور عدلیہ کی نگرانی موجود ہے۔
رپورٹ میں نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی (NIA) اور سی بی آئی جیسے اداروں کی جانب سے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (UAPA) کے غلط استعمال پر تنقید کی گئی ہے۔ ان قوانین کو مظاہرین، کارکنوں اور اقلیتی گروپوں کے خلاف طاقت کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مزید برآں، نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (NHRC) کی ناکامی کو بھی اجاگر کیا گیا ہے، کیونکہ یہ ادارہ موثر طریقے سے حقوق کی پامالیوں کا تدارک نہیں کر پا رہا۔ 2024 میں حراستی اموات کی تعداد 2,739 ریکارڈ کی گئی، جبکہ 2023 میں یہ تعداد 2400 کے قریب تھی۔
رپورٹ میں غیر سرکاری حراستی مراکز، جیلوں میں شدید بھیڑ، اور NHRC کی جانب سے حقوق کے تحفظ میں ناکامی کو نمایاں کیا گیا ہے۔
بھارت میں فوجداری قانونی اصلاحات جن کا مقصد حراست میں افراد کے تحفظ اور جبری اعترافات کو روکنا تھا، ان کے باوجود کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ سپریم کورٹ نے 2020 میں پولیس اسٹیشنوں میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کا حکم دیا تھا، مگر 2700 سے زائد پولیس اسٹیشنوں میں اب بھی کیمرے نصب نہیں کیے گئے ہیں۔
تشدد اور ماورائے عدالت قتل اکثر گرفتاریوں، منتقلیوں یا حراست کے دوران ہوتے ہیں اور یہ دلتوں، آدی واسیوں، مسلمانوں، مزدوروں اور بے گھر افراد کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتے ہیں، امتیازی پولیسنگ اور مار پیٹ جیسے غیر قانونی طریقے بھی عام ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنان خرم پرویز، جی این سائی بابا (معذور پروفیسر جنہیں 10 سال قید میں رکھا گیا)، سونی سوری، اور بھیما کورے گاؤں کے کارکنوں جیسے مقدمات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ کس طرح ریاستی سطح پر سیاسی دباؤ کے طور پر تشدد کا منظم استعمال کیا جاتا ہے، پروفیسر جی این سائی باباکی حراست میں موت ہو گئی تھی۔
رپورٹ میں یو اے پی اے کی من مانی گرفتاریوں اور کارکنوں کو دہشت گرد قرار دینے پر تنقید کی گئی ہے۔
علاوہ ازیں، مغربی بنگال کے سرحدی علاقوں میں ریاستی تشدد اور بارڈر سیکورٹی فورس کو حاصل استثنیٰ کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ بھارت نے ابھی تک اقوام متحدہ کے تشدد مخالف کنونشن اور اس کے اختیاری پروٹوکول کی توثیق نہیں کی ہے جس سے بین الاقوامی نگرانی کمزور ہو گئی ہے۔
آزاد ریسرچ کے مطابق گلوبل ٹارچر انڈیکس ایک 10 نکاتی منصوبہ پیش کرتا ہے، جس میں کہا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ کے تشدد کے خلاف کنونشن (UNCAT) اور اس کے اختیاری پروٹوکول کی توثیق کی جائے ، ایک جامع ملکی انسدادِ تشدد قانون بنایا جائے، افسپا (AFSPA)، یو اے پی اے (UAPA) اور ایف سی آر اے (FCRA) جیسے قوانین کو ختم یا اصلاح کی جائے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے جس میں پولیس اسٹیشنوں میں سی سی ٹی وی کی تنصیب کو لازمی قرار دیا گیا تھا، احتساب کو یقینی بنانے کے لیے آزادانہ عدالتی کارروائیاں کی جائیں، اور مندیلا قوانین و بنکاک قواعد کے مطابق حراست کے اصول اپنائے جائیں۔
آزاد ریسرچ کے مطابق گلوبل ٹارچر انڈیکس میں بھارت کو خطرناک ممالک میں شامل کیا جانا عالمی برادری کے لیے ایک سخت انتباہ ہے، ریاستی اداروں کی جانب سے منظم تشدد، احتساب کا فقدان، اور اقلیتوں و انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، جبری حراست، ماورائے عدالت قتل، اور غیر قانونی قوانین کے غلط استعمال نے ملک کو ایک ایسے راستے پر ڈال دیا ہے جہاں قانون کی حکمرانی کمزور اور ریاستی طاقت بے لگام ہو چکی ہے۔