امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی حملے سے قبل ایران جوہری ہتھیار بنانے سے چند ہفتے دور تھا، یہ بات جھوٹ ہے کہ امریکی حملے میں کوئی ایرانی ایٹمی تنصیب باقی رہ گئی ہے جس پر بم نہیں گرائے گئے۔
امریکی ٹیلی ویژن ’فاکس نیوز‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے اپنے دعوے کو دہرایا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ 13 جون کو اسرائیل کی فوجی کارروائی سے قبل ایران جوہری ہتھیار بنانے سے صرف چند ہفتے دور تھا۔
امریکا نے اسرائیل کے ابتدائی حملے کے 9 دن بعد ایران کی فورڈو، نطنز اور اصفہان تنصیبات پر حملے کیے تھے۔ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ امریکی حملوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام کی تنصیبات کو مکمل ’ختم‘ کر دیا ہے اور ’ایران کے جوہری عزائم کو دہائیوں تک پیچھے دھکیل دیا ہے‘۔
تاہم امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے حالیہ جائزوں نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے۔ آئی اے ای اے نے کہا ہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کا ایک بڑا حصہ رکھنے والی زیر زمین تنصیب فورڈو میں کتنا نقصان ہوا ہے۔
آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے خبردار کیا ہے کہ ایران چند ماہ کے اندر یورینیم کی افزودگی کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔ ایجنسی کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، ایران کے پاس 400 کلو گرام سے زیادہ یورینیم موجود ہے جو 60 فیصد تک افزودہ ہے، جو ایٹمی ہتھیار بنانے کے معیار سے بہت کم ہے اور نظریاتی طور پر مزید افزودہ ہونے کی صورت میں 9 جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے کافی ہے۔
ادھر ایران مسلسل جوہری ہتھیاروں کے حصول سے انکار کرتا رہا ہے اور اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ اس کا پروگرام مکمل طور پر سویلین مقاصد کے لیے ہے۔
تاہم ٹرمپ نے میڈیا رپورٹس اور انٹیلی جنس کے جائزوں کو مسترد کرتے ہوئے حملوں کی کامیابی پر شکوک و شبہات جھوٹ قرار دے دیا۔ انہوں نے خبر رساں اداروں پر ‘جعلی خبریں’ پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ محدود نقصان کے دعوے ‘خوفناک’ من گھڑت ہیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’انہوں نے اسے ایک کہانی میں تبدیل کرنے کی کوشش کی، لیکن پھر یہ پتہ چلا، نہیں، اسے اس طرح مٹا دیا گیا جیسے پہلے کبھی کسی نے انہیں دیکھا ہی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کے جوہری عزائم کم از کم ایک مدت کے لیے ختم ہو جائیں گے۔
ان خدشات کو کہ ان حملوں کے بعد ایران اپنے جوہری پروگرام کو بحال کر سکتا ہے، امریکی صدر نے کہا کہ ’آخری چیز جو وہ اس وقت کرنا چاہتے ہیں وہ جوہری پروگرام کے بارے میں پھر سے سوچنا ہے۔
حملے کے دوران ملنے والی اطلاعات کے مطابق ایران نے حملے سے قبل اپنے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو فورڈو سے باہر منتقل کر دیا تھا۔ ٹرمپ نے ان اکاؤنٹس کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور کہا کہ امریکا نے حملوں کا پیشگی نوٹس نہیں دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ بہت مشکل کام ہے، اس کے علاوہ ہم نے انہیں زیادہ نوٹس نہیں دیا کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ ہم حملہ کرنے آ رہے ہیں۔’کسی نے نہیں سوچا تھا کہ ہم اس جگہ پر حملہ کریں گے کیونکہ ہر کسی کا کہنا تھا کہ یہ ناقابل تسخیر ہے- یہ ایک پہاڑ کی تہہ میں ہے اور یہ گرینائٹ ہے۔
تجارت اور ٹک ٹاک پر پابندی کے علاوہ امریکی صدر نے انٹرویو کے دوران تجارتی امور پر بھی بات کی اور کہا کہ کینیڈا کے ساتھ جاری تجارتی مذاکرات اس وقت تک رک جائیں گے جب تک اوٹاوا اپنے نئے عائد کردہ ڈیجیٹل سروسز ٹیکس کو واپس نہیں لیتا، جس میں غیر ملکی اور ملکی ٹیکنالوجی کمپنیوں دونوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
چین کے حوالے سے ٹرمپ نے کہا کہ اگرچہ امریکا بیجنگ کے ساتھ اہم تجارتی خسارہ برقرار رکھے ہوئے ہے لیکن موجودہ تعلقات مستحکم ہیں۔
صدر ٹرمپ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے چینی سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کے لیے ایک خریدار حاصل کر لیا ہے، جسے امریکی پابندی کا خطرہ لاحق ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ اس معاہدے میں ’بہت امیر لوگوں‘ کا ایک گروپ شامل تھا اور 2 ہفتوں کے اندر اس کا انکشاف کیا جائے گا۔ انہوں نے پابندی کی ڈیڈ لائن میں تیسری بار توسیع کرتے ہوئے فریقین کو مزید 90 دن کا وقت دیا ہے۔