امر ناتھ یاترا 2025 بظاہر ایک مذہبی زیارت ہے، لیکن درحقیقت یہ بھارتی ریاست کی وہ حکمت عملی ہے جس کے ذریعے جموں کشمیر میں مکمل قبضہ، آبادیاتی تبدیلی اور مزاحمت کو کچلنے کا منصوبہ جاری ہے ، آزاد ریسرچ ڈیسک اس رپورٹ میں اس یاترا کے پس پردہ سیاسی و عسکری عزائم کو بے نقاب کرتا ہے۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی ہندو مذہب کی ایک اہم سالانہ زیارت امر ناتھ یاترا کا آغاز 3 جولائی سے ہورہا ہے ، جس میں ہزاروں یاتری بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر (IIOJK) کے بلند و بالا ہمالیائی پہاڑوں میں واقع مقدس امر ناتھ غار کا رخ کریں گے، یاتری یا تو روایتی پہلگام راستے پر 46 کلومیٹر طویل سخت سفر طے کریں گے یا زیادہ دشوار گزار بالٹال راستہ اختیار کریں گے تاکہ قدرتی طور پر بننے والے برف کے شیو لنگ کی زیارت کر سکیں، جسے ہندو عقیدے میں بھگوان شیو کا ظہور مانا جاتا ہے۔
لیکن عقیدت کے اس پردے کے پیچھے ایک منظم اور خطرناک حکمت عملی چھپی ہے، ایک ایسی حکمت عملی جو مذہب، سیاست اور قبضے کو یکجا کرتی ہے۔
مذہب کو سیاسی ہتھیار بننا
امر ناتھ یاترا اب محض ایک روحانی عمل نہیں رہا، یہ زیارت اب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی ہندوتوا پالیسی کا ایک مرکزی ہتھیار بن چکی ہے، جس کے ذریعے فوجی قبضے کو معمول کا حصہ بنایا جاتا ہے، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے ذریعے کالونیل قبضے کو مستحکم کیا جاتا ہے ، آبادیاتی تبدیلی کی راہ ہموار کی جاتی ہے اور حقیقی سیاسی مزاحمت کو مذہبی دشمنی میں بدلا جاتا ہے۔
یہاں موجود فوجی چوکیاں، تلاشی کیمپ، اور نگرانی کے آلات صرف یاتریوں کی “حفاظت” کے لیے نہیں بلکہ کشمیری سرزمین پر مستقل تسلط قائم رکھنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
22 اپریل کا حملہ: ایک بہانہ یا منصوبہ؟
یاترا کے دوران سیکیورٹی کے معاملات مزید مشکل ہیں ، خاص طور پر 22 اپریل کو پہلگام راستے پر ہونے والے حملے کے بعد، جس کے ذمہ داروں کا تعین تاحال مودی سرکار کرنے میں ناکام رہی ہے ، بھارت کے فالس فلیگ آپریشنز کی طویل تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ خدشہ موجود ہے کہ اس سال کی یاترا کو ایک پہلے سے طے کارروائی کا بہانہ بنایا جا سکتا ہے اور اس کا الزام پاکستان یا کشمیری حریت پسندوں پر ڈالا جائے گا۔
آزاد ریسرچ کے مطابق ایسی کارروائی سے بھارت کو کیا مقصد حاصل ہوسکتا ہے تو اس میں فوجی طاقت میں اضافہ اور کریک ڈاؤن کر کے کشمیریوں کی سیاسی آواز کا مزید گلا گھونٹنا شامل ہوگا جبکہ عالمی سطح پر اتنی بدنامی کے بعد بین الاقوامی سطح پر خود کو “دہشتگردی کا شکار” ظاہر کرنا بھی اس کی چال ہوسکتی ہے ، یہ حربے کسی زیارت کی انتظام کا حصہ نہیں، بلکہ قابض ریاست کی مخصوص حکمت عملی ہیں۔
انفراسٹرکچر یا قبضے کی بنیاد؟
“یاتریوں کی سہولت” کے نام پر جو سڑکیں، کیمپ، اور لاجسٹک سہولیات تعمیر کی جا رہی ہیں، وہ محض عارضی نوعیت کی نہیں، آزاد ریسرچ ڈیسک کے مشاہدات کے مطابق، یہ مستقل آبادکاری کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہیں ، غیر مقامی ہندو آبادکاروں کی مستقل موجودگی کو ممکن بناتی ہیں اور مسلم اکثریتی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، یہ بالکل آبادیاتی نقشہ بدلنے کے ایک اسرائیلی ماڈل کی نقل کی جارہی ہے ۔
آزاد ریسرچ ڈیسک کے مطابق یہ اقدامات واضح طور پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو مکمل طور پر مٹانے کی سازش ہیں۔
جیسے ہی 2025 کی امرناتھ یاترا کا آغاز ہوتا ہے تو یہ ضروری ہے کہ دنیا صرف مذہبی پہلو کو نہ دیکھے، بلکہ اس کے پیچھے چھپے سیاسی اور فوجی مقاصد کو بھی سمجھے، یہ زیارت، جو لاکھوں کے لیے روحانی اہمیت رکھتی ہے، آج ایک جغرافیائی، فوجی اور ثقافتی ہتھیار میں تبدیل ہو چکی ہے جس کو کشمیریوں کی شناخت مٹانے، زمین پر قبضہ جمانے اور مزاحمت کو کچلنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔