ویب ڈیسک: مودی حکومت ایک بار پھر شدید عوامی دباؤ کی زد میں ہے، اس بار بھارت کی مسلم کمیونٹی کی جانب سے وقف بل 2025 کے خلاف بھرپور مزاحمت سامنے آئی ہے۔ پیر کے روز ملک بھر میں لاکھوں مسلمانوں نے سڑکوں پر نکل کر اس متنازع بل کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا۔ احتجاج کا مرکز بہار کے تاریخی گاندھی میدان، پٹنہ میں دیکھنے میں آیا، جہاں نہ صرف ریاست بھر سے بلکہ ملک کے دیگر حصوں سے بھی لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔
یہ احتجاج امارتِ شریعہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (AIMPLB) کے زیرِ اہتمام منعقد ہوا، جس کا مرکزی نعرہ تھا “وقف بچاؤ، آئین بچاؤ”۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مجوزہ وقف بل نہ صرف مسلم اداروں کی مذہبی خودمختاری پر حملہ ہے بلکہ اس کے ذریعے حکومت وقف املاک میں مداخلت کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔ ان کے مطابق اس بل کے ذریعے وقف بورڈز میں غیر مسلم افراد کی شمولیت کو قانونی حیثیت دی جا رہی ہے، وقف کی بائی یوزر پالیسی کو ختم کیا جا رہا ہے، ضلع کلکٹرز کو زمین کی ملکیت کے فیصلوں کا اختیار دیا جا رہا ہے، اور عدالتی راستے بند کرتے ہوئے صرف وقف ٹریبونل تک اپیل کو محدود کر دیا گیا ہے۔
مظاہرین نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ ترامیم وقف کی تاریخی املاک پر غیر قانونی قبضے کو فروغ دیں گی اور اسے مسلم کمیونٹی پر براہ راست حملہ قرار دیا۔ اس احتجاج میں کئی اہم سیاسی رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ آر جے ڈی کے سربراہ لالو پرساد یادو، جن کی صحت ناساز ہے، نے مظاہرے میں آ کر بل کے خلاف اپنی شدید مخالفت کا اظہار کیا۔ ان کے بیٹے اور بہار اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو نے اعلان کیا کہ اگر مہاگٹھ بندھن (گرینڈ الائنس) کو اقتدار ملا تو وہ اس قانون کو ختم کر دیں گے۔
کانگریس کے رہنما سلمان خورشید اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM) کے اخترالایمان نے بھی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بل کو غیر آئینی قرار دیا اور کہا کہ یہ اقلیتوں کے آئینی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اگرچہ مظاہرہ پُرامن اور منظم رہا، لیکن اسٹیج پر خواتین کی غیر موجودگی پر بعض حلقوں کی جانب سے تنقید کی گئی۔
امارتِ شریعہ کے مولانا احمد ولی فیصل رحمانی نے کہا کہ یہ قانون بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 اور 26 کی کھلی خلاف ورزی ہے، جو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ جدوجہد صرف سڑکوں پر ہی نہیں بلکہ عدالتوں میں بھی جاری رہے گی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ آنے والے دنوں میں وجئے واڑا، حیدرآباد اور ممبئی میں بھی اسی نوعیت کے مظاہرے ہوں گے۔ دریں اثنا، سپریم کورٹ میں اس بل کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے متعدد درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں۔