سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے درمیان وائٹ ہاؤس میں غیر معمولی ملاقات نے بھارت کو سفارتی سطح پر انتہائی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، جب کہ نئی دہلی نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرِثانی کا عمل تیز کر دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستانی فوجی قیادت کو بغیر کسی سویلین نمائندے کے وائٹ ہاؤس میں مدعو کرنے کا پہلا واقعہ ہے، جو کہ بھارت اور امریکا کے 2 دہائیوں پر محیط مضبوط تعلقات سے ایک نئی صورت حال پیدا ہو گئی ہے، اس ملاقات نے بھارت کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق سینیئر بھارتی حکام دعویٰ کر رہے ہیں کہ مودی حکومت نے واشنگٹن کو واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان کی فوجی قیادت سے قربت بھارت، امریکا تعلقات کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت پاکستان پر الزامات عائد کیے جا رہا ہے، خصوصاً مئی میں بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں پہلگام فالس فلیگ پر کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا اقدام کرتے ہوئے فضائی حملے کیے، جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان فضائی جھڑپیں اور ڈرون حملے ہوئے، یہاں تک کہ بعد میں سیز فائر پر اتفاق کرنا پڑا۔
صورتحال اس وقت مزید کشیدہ ہوئی جب ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ کو انہوں نے ٹال دیا، اور مبینہ طور پر تجارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکی دے کر جنگ کا خطرہ ٹال دیا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی دونوں ممالک کے فوجی افسران کے براہ راست مذاکرات سے ممکن ہوئی، نہ کہ امریکی ثالثی سے ممکن ہوئی ہے۔
بھارت کی اسٹریٹجک حکمتِ عملی میں تبدیلی
برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر متوقع سفارتی پالیسی اور پاکستان کے ساتھ امریکا کی بڑھتی ہوئی قربت کے ردعمل میں، بھارت اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی لا رہا ہے۔ حکام اور تجزیہ کاروں کے مطابق، نئی دہلی اب چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے، باوجود اس کے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی ایک طویل تاریخ ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق یقیناً بھارت کا چین کی جانب ایک سفارتی جھکاؤ دیکھنے کو مل رہا ہے، بھارتی تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے ہرش پنت نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ رسائی دو طرفہ ہے، چین بھی رابطہ کر رہا ہے‘۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے حال ہی میں بیجنگ کا دورہ کیا، جو کہ 2020 میں سرحدی جھڑپ کے بعد ان کا پہلا دورہ تھا اور بھارت اب چینی سرمایہ کاری پر عائد کچھ پابندیوں کو نرم کرنے پر غور کر رہا ہے۔
تجارتی تعلقات پر بھی اثرات
رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی امور کے ساتھ ساتھ تجارتی میدان میں بھی بھارت اور امریکا کے تعلقات میں دراڑ آ گئی ہے۔ نریندر مودی نے جون میں کینیڈا میں ہونے والے جی7 اجلاس کے بعد ٹرمپ کی جانب سے واشنگٹن کے دورے کی دعوت کو مسترد کر دیا۔
بھارت امریکا تعلقات پہلے کی طرح ہموار نہیں رہے
رپورٹ کے مطابق اس کے بعد، بھارت نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں امریکا کے خلاف جوابی ٹیرف (محصولات) تجویز کیے، جو اس بات کی علامت ہے کہ تجارتی مذاکرات پہلے کی طرح ہموار نہیں رہے۔
ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو انسداد دہشتگردی کے نام پر ہتھیاروں کی فراہمی کی بات نے نئی دہلی کو مزید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایک بھارتی اہلکار نے کہا کہ جو بھی ہتھیار پاکستان کو ملیں گے، ان کا استعمال ہمارے خلاف کسی بھی ممکنہ جنگ میں ہو سکتا ہے‘۔
محتاط سفارت کاری کا وقت
برطانوی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن اور اسلام آباد نے اس کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک امریکی اہلکار نے کہا کہ امریکا بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھتا ہے، اور ان کا تقابل نہیں کرتا۔
لیکن نئی دہلی کے لیے پیغام واضح ہے کہ ’غیر جانب داری اور توازن کی پالیسی ہی اس وقت سب سے محفوظ راستہ ہے۔ جیسے جیسے بھارت ایک تبدیل ہوتے ہوئے عالمی منظرنامے میں اپنی پوزیشن کو ازسرِ نو ترتیب دیتا ہے، اس کے امریکا، پاکستان، اور چین کے ساتھ تعلقات پر دنیا کی نظریں جمی رہیں گی۔