چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن ملک بوستان نے واضح کیا ہے کہ ڈالر اب مزید مہنگا نہیں ہوگا بلکہ آنے والے دنوں میں قیمت 270 روپے تک واپس آنے کا امکان ہے۔ بعض خبروں کے مطابق ڈالر کی قیمت 250 روپے تک بھی گر سکتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ڈالر کی قدر میں اضافے کی بڑی وجہ افغانستان اور ایران میں کرنسی اسمگلنگ ہے۔ اسمگلرز قانونی منی چینجرز کے مقابلے زیادہ نرخ دے کر مارکیٹ سے ڈالر خرید رہے ہیں، جس سے باضابطہ چینلز پر سپلائی محدود ہو گئی ہے ۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی نئی پالیسی کے تحت دو لاکھ روپے سے زائد کیش لین دین پر ٹیکس نافذ ہونے کے بعد، نان فائلرز قانونی راستے سے بچنے کے لیے بلیک مارکیٹ سے ڈالر خرید رہے ہیں، جس سے طلب میں اضافہ ہوا ہے ۔
ملک بوستان نے حکومت کو تجویز پیش کی کہ 2,000 ڈالر تک کی کیش خریداری پر ٹیکس نہ لگایا جائے، تاکہ عوام قانونی ذرائع سے ڈالر خریدیں اور غیر قانونی راستوں سے گریز کریں۔ ان تجاویز کی روشنی میں ایف آئی اے نے اسمگلروں کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں، جس کے بعد اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں تقریباً 60 پیسے کی کمی دیکھی گئی اور قیمت 288 روپے پر آ گئی، جبکہ انٹر بینک میں یہ 284 روپے 76 پیسے ہو چکی ہے ۔
اگر یہ کریک ڈاؤن جاری رہتا ہے تو ملک بوستان کے مطابق ڈالر کی قیمت مرحلہ وار 280، 270 اور حتیٰ کہ 250 روپے تک گر سکتی ہے ۔ اسٹیٹ بینک نے گزشتہ 9 ماہ میں انٹر بینک مارکیٹ سے 9 ارب ڈالر خرید کر زرمبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالر تک بڑھا دیے ہیں اور اب مزید خریداری پر پابندی لگا دی گئی ہے، جس سے مارکیٹ پر دباؤ میں کمی اور استحکام متوقع ہے
ملک بوستان نے عوام سے اپیل کی کہ افواہوں پر کان دھرنے کی بجائے ذخیرہ اندوزی سے اجتناب کریں اور لین دین میں صرف قانونی طریقہ کار کے مطابق کریں، کیونکہ اس وقت روپیہ غیر حقیقی طور پر کمزور نظر آ رہا ہے، جبکہ اس کی حقیقی قیمت تقریباً 250 روپے ہونی چاہیے ۔