بھار تی صحافی بھارت بھوشن نےآپریشن مہادیوکو غیر حقیقی اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اس پوری کہانی کا پول کھول دیا ہےکشمیر میڈیا سروس کے مطابق ا نہوں نے اپنے ایک مضمون میں جو بھارتی اخبار دکن ہیرالڈ میں شائع ہوا، اس مبینہ آپریشن پر سنگین سوالات اٹھاتے ہوئے بھارت کے انسداد دہشت گردی اقدامات کی ساکھ کو مشکوک قرار دیا ہے۔
بھوشن نے لکھا کہ کیا واقعی بھارتی پارلیمنٹ سے ایسی ناقابلِ یقین داستان پر یقین کی توقع کی جا سکتی ہے؟ آخر کون ہے جو اس من گھڑت کہانی کو سچ مانے؟ اس پوری کارروائی سے اصل میں کس کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے؟
انہوں نے سوال اٹھایا کہ پہلگام حملے سے متعلق غیر جانبدار فرانزک شواہد کہاں ہیں؟ کیا کوئی ہوش مند شخص اسلحہ، مٹھائیاں اور شناخت ظاہر کرنے والی چیزیں ساتھ لے کر فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ جس دن بھارتی پارلیمنٹ میں آپریشن سندور پر بحث ہونی تھی ٹھیک اسی روز مبینہ ماسٹر مائنڈ مارا گیا کیا یہ محض اتفاق ہے یا پیشگی منصوبہ بندی؟
اس قدر “مناسب وقت” پر کارروائی کے بعد یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ شواہد ضائع نہیں کیے گئے؟بھوشن نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ سب کسی ڈرامہ سیریل کا منظر نہیں لگتا؟ جیسے کسی فلم میں پولیس افسر کسی کے گھر جا کر اپنے ساتھی کو حکم دیتا ہے حولدار اسلحہ برآمد کرلو! انہوں نے اوڑی سے پلوامہ تک بھارتی انٹیلیجنس کی بار بار کی ناکامیوں پر بھی انگلی اٹھائی اور پوچھا کہ ان ناکامیوں کے ذمہ داروں کا کبھی احتساب ہوا؟
بھارت بھوشن کا کہنا تھا کہ جو لوگ مارے جاتے ہیں وہ کبھی کچھ نہیں کہتے ان کے ساتھ ہی سچ دفن ہو جاتا ہے بس حکومت کی بیان کردہ کہانی باقی رہ جاتی ہے جسے بغیر ثبوت ماننے پر زور دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے نام نہاد انکاؤنٹرز بھارتی انسداد دہشت گردی بیانیے کی ساکھ کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ داچھی گام جیسے واقعات صرف عوامی غم و غصے کو وقتی طور پر ٹھنڈا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں، جبکہ اصل مجرموں کو محفوظ راستہ دیا جاتا ہے۔
نہ تو فرانزک رپورٹیں سامنے آتی ہیں، نہ انٹیلیجنس معلومات اور نہ ہی کوئی عدالتی نگرانی ہوتی ہے اپوزیشن جماعتیں غداری کے الزام سے بچنے کے لیے چپ سادھ لیتی ہیں جبکہ میڈیا اشتہارات اور رسائی کے خوف سے زبان بند رکھتا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ حکومت مبینہ ٹرینرز اور ماسٹر مائنڈز کا نام لیتی ہے مگر کسی بھی قانونی کارروائی کے بغیر جب لوگ مارے جاتے ہیں تو عدالتی تحقیقات کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور حکومت اپنی من گھڑت کہانی کو آگے بڑھا دیتی ہے۔
اصل میں یہ قتل ان لوگوں کے تحفظ کا ذریعہ بنتے ہیں جو سیکورٹی اور انٹیلیجنس کی ناکامیوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔بھوشن کا موقف ہے کہ عوام اصل خطرات، ناکامیوں اور غلط پالیسیوں سے بے خبر رہتے ہیں کیونکہ غیر واضح سیکیورٹی بیانیے کسی بھی متبادل سوچ کو دبائے رکھتے ہیں۔
آخر میں سوال یہ ہے کہ کیا مودی، راجناتھ سنگھ، امیت شاہ اور اجیت ڈول جیسے شدت پسند حکمران اب بھی اس تنقید کا جواب دینے کے قابل ہیں؟ یہ سوالات کسی دشمن ملک نے نہیں اٹھائے، بلکہ خود بھارت کے ایک معتبر صحافی نے اپنی حکومت سے کیے ہیں۔
اب یہ بھارتی عوام پر ہے کہ وہ آنکھیں کھولیں اور سوچیں کہ کب تک ان کے نام پر ایک فسطائی جماعت اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے جھوٹ اور ڈراموں کا سہارا لیتی رہے گی۔