امریکا اور بھارت کے درمیان تجارتی تنازع مسلسل شدت اختیار کر رہا ہے اور اب اس کشیدگی نے باضابطہ مذاکرات پر بھی اثر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔
واشنگٹن نے نئی دہلی کے ساتھ اگست میں طے شدہ تجارتی مذاکرات اچانک منسوخ کر د ئیے ہیں جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات ایک نئے تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی تجارتی وفد نے 25 سے 29 اگست تک بھارت کا دورہ کرنا تھا تاہم یہ شیڈول منسوخ کر دیا گیا۔
ماہرین کے مطابق یہ اقدام اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ امریکا بھارت کی تجارتی پالیسیوں خصوصاً روس سے توانائی کے سودوں پر سخت تحفظات رکھتا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے روسی تیل کی خریداری بھارت اور امریکا کے درمیان ایک اہم تنازع بن چکی ہے، واشنگٹن کی جانب سے بارہا خبردار کیے جانے کے باوجود بھارت نے روس سے تیل کی درآمدات کم یا بند کرنے کا کوئی اعلان نہیں کیا۔
اس رویے پر ناراضی ظاہر کرتے ہوئے امریکا نے بھارت پر 25 فیصد اضافی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کر دیا جس کے نتیجے میں مجموعی امریکی ڈیوٹی کی شرح 50 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
وائٹ ہاؤس نے اپنے مؤقف میں کہا کہ بھارت نہ صرف براہِ راست بلکہ بالواسطہ طور پر بھی روسی تیل درآمد کر رہا ہے، اس لیے اضافی ڈیوٹی لگانا ضروری اور ناگزیر تھا۔
چند روز قبل امریکی وزیر خزانہ نے بھی واضح کیا تھا کہ اگر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان ہونے والی مجوزہ بات چیت ناکام رہتی ہے تو بھارت پر عائد ٹیرف کی شرح 50 فیصد سے بھی بڑھ سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال نہ صرف دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات کو متاثر کرے گی بلکہ عالمی توانائی
اور معاشی توازن پر بھی اس کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
بھارت اگر روسی تیل پر انحصار برقرار رکھتا ہے تو اسے امریکی تجارتی پابندیوں اور مزید سخت اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس سے خطے میں معاشی سفارتی دباؤ مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔