یہ ویزا خاص طور پر سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریسرچ (ایس ٹی ای ایم ) کے شعبوں میں نوجوان گریجویٹس، محققین اور پروفیشنلز کے لیے متعارف کرایا گیا ہے۔
چین کی جانب سے اس اہم فیصلے کو طویل المدتی حکمتِ عملی کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے، جس کا مقصد تعلیم، ٹیکنالوجی اور عالمی ٹیلنٹ کی مدد سے ملک کی ترقی کو تیز کرنا ہے۔
کے۔ ویزا کے لیے کون اہل ہے؟
کے۔ ویزا ان افراد کے لیے دستیاب ہوگا جو درج ذیل شرائط پر پورا اترتے ہوں۔
ان افراد میں ایسے گریجویٹس جن کے پاس بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یونیورسٹی سے بیچلر یا اس سے اعلیٰ ڈگری ہو، وہ نوجوان محققین یا پروفیشنلز جو سائنس یا ٹیکنیکل فیلڈز میں کام کر رہے ہوں، ایسے امیدوار جو چین کے تعلیمی، تحقیقی، یا ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کردار ادا کرنا چاہتے ہوں۔
اس اقدام کی نمایاں بات یہ ہے کہ کے۔ ویزا کے لیے چینی ادارے یا آجر کے ’انوی ٹیشن لیٹر( دعوتی خط ) کی ضرورت نہیں ہوگی، جو اسے دیگر ورک یا ریسرچ ویزوں کے مقابلے میں زیادہ سہل اور قابلِ رسائی بناتا ہے۔
اہم خصوصیات اور فوائد
کے۔ ویزا ہولڈرز کو روایتی ویزوں کی نسبت زیادہ سہولتیں اور مواقع میسر ہوں گے، جن میں طویل مدتی ویزا اور کئی بار داخلے (ملٹی انٹری) کی سہولت، جس سے بار بار ویزا تجدید کی زحمت بھی کم ہو گی۔
کے۔ویزا لے کر جانے والے افراد کو ریسرچ، اکیڈمک پروگرامز، اسٹارٹ اپس، ٹیکنالوجی وینچرز اور ثقافتی تبادلوں میں شرکت کی اجازت ہو گی، اسی طرح چین کے بڑے شہروں جیسے بیجنگ، شنگھائی اور نئے ٹیک ہبز جیسے شینزین، ہانگژو تک رسائی حاصل ہوگی۔
یہ فوائد چین کو بین الاقوامی نوجوان ٹیلنٹ کے لیے مزید پرکشش بنا سکتے ہیں، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو ابتدائی کیرئیر میں عالمی تجربہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستانی طلبا اور پروفیشنلز کے لیے مواقع
پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ پالیسی ایک اہم موقع فراہم کرتی ہے۔ بہت سے پاکستانی طلبا جو ’ایس ٹی ای ایم‘ شعبوں میں تعلیم یا تحقیق کر رہے ہیں، اب چین میں ملازمت یا ادارہ جاتی دعوت کے بغیر کے۔ ویزا کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
یہ نہ صرف پاکستانی نوجوانوں کے لیے ریسرچ اور کیرئیر میں آگے بڑھنے کا ذریعہ بن سکتا ہے، بلکہ چین-پاکستان تعاون کو بھی سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں مضبوط کرے گا۔
چیلنجز اور آئندہ کے اقدامات
اگرچہ عالمی سطح پر اس پالیسی کا خیرمقدم کیا جا رہا ہے، مگر اب تک چین نے مکمل اہلیت کے معیار اور درکار دستاویزات کا اعلان نہیں کیا۔ اس اسکیم کی کامیابی کا انحصار مؤثر درخواست کے طریقہ کار اور نئے آنے والوں کے لیے سپورٹ سسٹمز پر ہوگا۔
متوقع ہے کہ اگلے ہفتوں میں چین کے بڑے انوویشن زونز میں پائلٹ اسکیمز جاری کی جائیں گی، جن میں رہائشی سہولتیں، تحقیقی کلسٹرز تک رسائی اور دیگر مراعات شامل ہوں گی، تاکہ کے۔ ویزا ہولڈرز کو جلد از جلد چین کے نظام میں ضم کیا جا سکے۔
چین اگر اپنی اختراعی قیادت کو عالمی سطح پر مستحکم کرنا چاہتا ہے تو کے۔ ویزا ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے، خاص طور پر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے نوجوان ٹیلنٹ کے لیے۔