وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان خطے میں امن و استحکام کا داعی ہے، پاکستان تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے، پاکستان مذاکرات اور سفارتکاری پر یقین رکھتا ہے۔
پیر کو چین میں شنگھائی تعاون تنظم کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے چین کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے اجلاس کے لیے ’گرمجوش میزبانی اور شاندار انتظامات‘ کیے۔ انہوں نے ازبکستان اور کرغیزستان کو ان کے قومی دنوں پر مبارکباد بھی پیش کی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ’ایس سی او‘ پاکستان کے اس پائیدار عزم کی نمائندگی کرتی ہے جو علاقائی تعاون اور انضمام سے جڑا ہے،۔ انہوں نے صدر شی جن پنگ کی ’مدبر اور بصیرت افروز قیادت‘ کو سراہا، جس کے تحت چین نے شنھگائی تعاون تظیم کی کامیاب صدارت کی۔
انہوں نے چین کے عالمی اقدامات، خصوصاً بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو جیسے اقدامات کو بھی سراہا، اور سی پیک کو اس کا فلیگ شپ منصوبہ قرار دیتے ہوئے علاقائی ممالک کو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی دعوت دی۔
علاقے میں بڑھتے ہوئے تنازعات کا حوالہ دیتے ہوئے وزیرِاعظم نے ’گزشتہ چند مہینوں میں خطے میں ہونے والی انتہائی تشویشناک پیش رفت‘ پر گہری مایوسی اور تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے تمام رکن ممالک کی خودمختاری اورعلاقائی سالمیت کے احترام پر زور دیا اور کہا کہ تمام ممالک کو موجودہ معاہدوں، خصوصاً پانی کے بٹوارے جیسے اہم امور پر، عمل درآمد کرنا چاہیے۔
وزیرِاعظم نے کہا کہ پاکستان اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ کشیدگی کے بجائے مستحکم تعلقات کا خواہاں ہے۔ ہم تصادم کے بجائے مکالمے اور سفارت کاری پر یقین رکھتے ہیں۔ ’انہوں نے ایس سی او چیئرمین سے درخواست کی کہ وہ زیر التوا تنازعات کے حل کے لیے ایک بامقصد اور ڈھانچہ جاتی مکالمے کی قیادت کریں تاکہ خطے کو جلد از جلد اس کے ثمرات حاصل ہوں۔
بین الاقوامی مسائل پر بات کرتے ہوئے وزیرِاعظم نے ایران پر اسرائیل کی ’بلاجواز جارحیت‘ کی شدید مذمت کی، جسے انہوں نے ناقابل قبول قرار دیا۔ انہوں نے غزہ میں جاری انسانی المیے کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ یہ ’ہمارے اجتماعی ضمیر پر ایک ناسور‘ ہے، اس لیے دُنیا کو چاہیے کہ وہ غزہ میں فوری جنگ بندی کروائے۔
فلسطین کے مسئلے پر پاکستان کے مؤقف کو دہراتے ہوئے انہوں نے اقوام متحدہ کے تحت 1967 سے قبل کی سرحدوں اور القدس الشریف کو دارالحکومت بنا کر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی۔
دہشت گردی پر گفتگو کرتے ہوئے وزیرِاعظم نے کہا کہ ’پاکستان دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کی ہر شکل میں بھرپور اور واضح انداز میں مذمت کرتا ہے‘۔انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان کی جعفرایکسپریس ٹرین حملے اور بلوچستان و خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کے دیگر واقعات میں ’غیر ملکی عناصر‘ کے ملوث ہونے کے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں۔
انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 90,000 سے زیادہ جانوں کا نذرانہ دیا ہے اور 152 ارب ڈالر سے زیادہ کے معاشی نقصانات برداشت کیے ہیں۔ ’یہ قربانی تاریخ میں بے مثال ہے اور دہشتگردی کے خلاف ہمارے غیر متزلزل عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
افغانستان سے متعلق وزیرِاعظم نے کہا کہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہے۔ انہوں نے چین، پاکستان اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی تعاون کی امید ظاہر کی اور کہا کہ اس کے مثبت نتائج مستقبل میں سامنے آئیں گے‘۔
خطاب کے اختتام پر وزیرِاعظم نے علاقائی روابط کے فروغ کی اہمیت کو اجاگر کیا اور ایس سی او کے تمام رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ اجتماعی ترقی، استحکام، اور خوشحالی کے لیے مل کر کام کریں۔