مقبوضہ جموں کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے علاقے حیدرپورہ میں کشمیری حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کی چوتھی برسی کے موقع پر بھارتی حکام نے سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ علاقے میں بھارتی نیم فوجی دستے اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی اور لوگوں کو ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کی اجازت نہیں دی گئی۔
سید علی گیلانی، جو کہ کشمیری مزاحمتی تحریک کا ایک استعارہ تھے، یکم ستمبر 2021 کو وفات پا گئے۔ ان کی وفات کے وقت مودی حکومت نے وادی میں مکمل کرفیو نافذ کر دیا تھا اور انٹرنیٹ و میڈیا پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔ بھارتی فورسز نے ان کی میت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر رات کی تاریکی میں زبردستی دفن کر دیا، اور اہل خانہ و عوام کو نمازِ جنازہ کی اجازت نہ دی گئی۔
آج جب کہ عوامی اجتماع پر پابندی عائد تھی، آل پارٹیز حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) اور دیگر تنظیموں نے ان کے ایصالِ ثواب کے لیے ان ڈور دعائیہ اجتماعات منعقد کیے۔ ان تقریبات میں سید علی گیلانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی بے مثال جدوجہد کو کشمیری تحریکِ آزادی کا ’سنہرا باب‘ قرار دیا گیا۔
اے پی ایچ سی کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے ایک بیان میں کہا کہ سید علی گیلانی صاحب نے تمام تر مظالم کے باوجود اپنے اصولوں پر ڈٹے رہ کر حریت کے مقصد کے لیے اپنی زندگی وقف کی اور ان کی قربانیاں تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
سید علی گیلانی جو کئی بار مقبوضہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے رکن رہ چکے تھے، ایک مضبوط نظریاتی رہنما تھے جنہوں نے کبھی بھارتی قبضے کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ جماعتِ اسلامی، نیشنل کانفرنس اور بعد ازاں تحریکِ حریت سے وابستہ رہے۔ 1993 میں انہوں نے آل پارٹیز حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی اور 1998 سے 2006 تک 3 بار اس کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ 2015 میں انہیں تاحیات چیئرمین منتخب کیا گیا۔
بھارتی حکومت نے ان کا پاسپورٹ 1981 سے ضبط کر رکھا تھا اور وہ اکثر گھر میں نظربند یا جیل میں قید رہے۔ اس کے باوجود وہ بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے رہے اور کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے حامی رہے۔ انہوں نے اپنی جدوجہد کو کتابی شکل میں بھی پیش کیا ان کی ایک مشہور کتاب ’رودادِ قفس‘ اور آخری کتاب ’آخری پیغام‘ ہے۔
پاکستانی حکومت نے کشمیری تحریکِ آزادی میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں اعلیٰ ترین شہری اعزاز نشانِ پاکستان سے نوازا تھا۔
اگرچہ وادی اس وقت بھی سخت ریاستی جبر کا شکار ہے، لیکن سید علی گیلانی کا نظریہ آج بھی لاکھوں کشمیریوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ ان کے پیروکاروں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ آزادی کی اس جدوجہد کو ہر قیمت پر جاری رکھیں گے، جس کے لیے سید علی گیلانی نے اپنی ساری زندگی وقف کر دی۔