بھارت کھیل کے میدان میں بھی بدنام، ڈوپنگ بحران شدت اختیار کر گیا، اولمپکس کی میزبانی بھی داؤ پرلگ گئی

بھارت کھیل کے میدان میں بھی بدنام، ڈوپنگ بحران شدت اختیار کر گیا، اولمپکس کی میزبانی بھی داؤ پرلگ گئی

بھارت ایک سنگین ڈوپنگ بحران کا سامنا کر رہا ہے جبکہ وہ 2036 کے اولمپک کھیلوں کی میزبانی کی دوڑ میں بھی شامل ہے، ایک ایسا ہدف جو اب انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (آئی او سی) کی جانب سے ملک کے ناقص اینٹی ڈوپنگ ریکارڈ کی وجہ سے سخت جانچ پڑتال کا شکار ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں:بھارتی جارحیت کھیلوں تک جا پہنچی، انڈین کرکٹ بورڈ نے ایشیا کپ کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا

بھارت کے سب سے مشہور ایتھلیٹ اور گولڈ میڈلسٹ نیزہ باز نیرج چوپڑا نے رواں سال کے آغاز میں ایک سخت وارننگ جاری کی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’ڈوپنگ بھارت میں ہمارے کھلاڑیوں کے درمیان ایک بڑا مسئلہ ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کو ممنوعہ ادویات کے بجائے محنت، مناسب خوراک اور آرام پر توجہ دینی چاہیے۔

’آئی او سی‘ کی تنبیہ کے بعد بھارتی اولمپک ایسوسی ایشن(آئی او اے) نے گزشتہ ماہ ایک نیا اینٹی ڈوپنگ پینل تشکیل دیا۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے بھی ایک نیا اینٹی ڈوپنگ بل منظور کیا ہے تاکہ نگرانی کو سخت کیا جا سکے، ٹیسٹنگ سہولیات میں اضافہ ہو اور کھیلوں میں دیانت داری کے اعلیٰ معیار کو یقینی بنایا جا سکے۔

ورلڈ اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کے مطابق بھارت ان ممالک میں شامل ہے جہاں ہر سال ایک ہزار سے زیادہ سیمپلز لیے جانے والے ممالک میں سب سے زیادہ خلاف ورزیاں رپورٹ ہوتی ہیں۔ 2023 میں بھارت میں 5,606 سیمپلز جمع کیے گئے جن میں سے 213 مثبت پائے گئے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی کھلاڑیوں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ممنوعہ مادہ مصنوعی سٹیرائیڈ ’ستانوزولول‘ ہے۔

مایوسی اور محرکات

ماہرین کے مطابق بھارت میں ڈوپنگ کا مسئلہ سماجی و معاشی وجوہات سے جڑا ہوا ہے۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی کے باوجود بھارت نے اپنی تاریخ میں صرف 10 اولمپک گولڈ میڈل جیتے ہیں۔ بہت سے کھلاڑیوں کے لیے کھیل میں کامیابی غربت سے نجات اور سرکاری ملازمت خاص طور پر پولیس یا مسلح افواج میں ایک مواقع کا ذریعہ ہے‘۔

مزید پڑھیں:ٹی20 ایشیا کپ: پاک بھارت ٹاکرا، سکھ برادری کی پاکستان کی جیت کے لیے خصوصی دعائیں

وکیل سوربھ مشرا، جو متعدد ڈوپنگ کیسز میں ایتھلیٹس کا دفاع کر چکے ہیں، کا کہنا ہے, ’ایتھلیٹس جانتے ہیں کہ انہیں سزا ہو سکتی ہے، پھر بھی وہ اپنا کیریئر خطرے میں ڈال دیتے ہیں، کیونکہ میڈل جیتنا انہیں سرکاری نوکری دلا سکتا ہے‘۔

بھارت میں سب سے زیادہ ڈوپنگ کیسز اتھلیٹکس میں سامنے آئے ہیں، جس کے بعد ریسلنگ دوسرے نمبر پر ہے۔ حال ہی میں 19 ریسلرز پر پابندی عائد کی گئی، جن میں انڈر 23 چیمپئن اور پیرس اولمپکس کوارٹر فائنلسٹ ریتیکا ہوڈا بھی شامل ہیں، جنہیں ڈوپ ٹیسٹ مثبت آنے پر عبوری طور پر معطل کر دیا گیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض ایتھلیٹس لاعلمی میں ممنوعہ سپلیمنٹس یا ادویات استعمال کرتے ہیں، لیکن کچھ جان بوجھ کر خطرہ مول لیتے ہیں۔ بعض اوقات کوچز کی جانب سے بھی کھلاڑیوں کو ڈوپنگ پر اکسایا جاتا ہے۔

وقت کے خلاف دوڑ

اب بھارت کو نہ صرف کھیلوں کے میدان میں اپنی شفافیت ثابت کرنا ہے بلکہ دنیا کو یہ بھی یقین دلانا ہے کہ وہ اولمپکس جیسے عالمی ایونٹ کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔ 2022 میں منظور کیے گئے نئے اینٹی ڈوپنگ قانون کے تحت حکومت نے نفاذ کو سخت بنانے، ٹیسٹنگ کی صلاحیت بڑھانے اور کھیلوں میں شفافیت یقینی بنانے کے اقدامات کیے ہیں۔

مزید پڑھیں:پاکستان، بھارت بڑا ٹاکرا، بھائی چارہ اب ماضی کی بات، ارشد ندیم، نیرج چوپڑا بڑے مقابلے کے لیے تیار

تاہم سابق ’آئی او سی‘ مارکیٹنگ ڈائریکٹر مائیکل پین کا ماننا ہے کہ ڈوپنگ صرف ایک مسئلہ ہے، بھارت کے لیے اصل چیلنج کچھ اور ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اصل مسئلہ یہ ہے کہ ’آئی او سی‘ کو اس بات پر اعتماد ہو کہ میزبان ملک اولمپکس کے انعقاد کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اس شعبے میں بھارت کو ابھی بہت کام کرنا ہے‘۔ وہ 2010 کے دہلی کامن ویلتھ گیمز کا حوالہ دے رہے تھے، جن میں بدعنوانی کے متعدد الزامات سامنے آئے تھے۔ انہوں نے مزید کہا, ’یہی بھارت کی بولی کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘۔

انڈونیشیا، ترکیہ، چلی اور قطر جیسے ممالک کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے، بھارت کو اب خود کو ایک قابلِ اعتماد، شفاف اور مؤثر میزبان کے طور پر ثابت کرنا ہوگا، تاکہ اولمپکس کا خواب صرف خواہش نہ رہ جائے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *