پاکستان کے بعد قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ غزہ امن منصوبے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’منصوبے میں بعض نکات ایسے ہیں جن پر ‘وضاحت اور مذاکرات’ کی ضرورت ہے‘۔
الجزیرہ ٹی وی کو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شیخ محمد نے کہا کہ اگرچہ منصوبہ جنگ کے خاتمے کی ایک اہم کوشش ہے، مگر اس میں کچھ پیچیدہ امور ہیں جن پر بات چیت ناگزیر ہے۔ ‘یہ منصوبہ جنگ ختم کرنے کے ایک اہم مقصد کو حاصل کرتا ہے، لیکن کچھ مسائل ایسے ہیں جن کی وضاحت اور مذاکرات کی ضرورت ہے’۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ تمام فریقین اس امن منصوبے کو تعمیری انداز میں دیکھیں گے اور موجودہ موقع سے فائدہ اٹھا کر جنگ کے خاتمے کی جانب پیش قدمی کریں گے۔
شیخ محمد عبدالرحمان کے مطابق، قطر کو تاحال حماس کی جانب سے اس منصوبے پر کوئی باضابطہ ردعمل موصول نہیں ہوا ہے۔ ‘ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ حماس کا منصوبے پر کیا ردعمل ہے، جس کے لیے فلسطینی دھڑوں کے درمیان اتفاق رائے ضروری ہے’۔
انہوں نے واضح کیا کہ قطر اور مصر نے پیر کو حماس کو آگاہ کر دیا ہے کہ ان کی اولین ترجیح جنگ کا خاتمہ ہے۔ ‘قطر کی پہلی ترجیح اب فلسطینی عوام کی مصیبتوں کا خاتمہ ہے، خصوصاً غزہ میں جاری قحط، قتل عام اور جبری بے دخلی کو روکنا’۔
شیخ محمد نے یہ بھی کہا کہ پیر کو پیش کیا گیا منصوبہ دراصل اصولی نکات پر مشتمل ہے، جنہیں تفصیل سے طے کرنا اور عملی شکل دینا باقی ہے۔ ‘جو کل پیش کیا گیا وہ منصوبے کے اصول تھے، جن پر تفصیلی گفتگو اور انہیں عملی جامہ پہنانا ضروری ہے’۔
انہوں نے بتایا کہ عرب اور اسلامی ممالک نے فلسطینی عوام کی زمین پرموجودگی کو یقینی بنانے اور2 ریاستی حل کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ‘موجودہ مرحلہ نہایت اہم ہے اور یہ مذاکرات کا حصہ ہے۔ اس سے کامل یا مکمل زبان کی توقع نہیں کی جا سکتی، مگر اس راستے کو مضبوط بنانا اور کامیاب بنانا بہت ضروری ہے’۔
شیخ محمد نے سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی امن تنظیم ‘بورڈ آف پیس’ میں شمولیت پر بھی تنقید کی، تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں دیں۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران غزہ میں جنگ بندی کے لیے 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا تھا۔ اس منصوبے میں تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی، حماس کو مکمل غیر مسلح کرنا، اسرائیلی فوج کا تدریجی انخلا اور ایک غیرسیاسی ٹیکنو کریٹ فلسطینی کمیٹی کے قیام کی تجویز شامل ہے جو غزہ کا انتظام سنبھالے گی۔
منصوبے میں فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ دکھانے کا اشارہ تو دیا گیا ہے، مگر اس کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی۔
یاد رہے کہ اسرائیلی فوج نے اکتوبر 2023 سے جاری کارروائیوں میں اب تک غزہ میں 66 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ مسلسل بمباری نے غزہ کو عملاً ناقابل رہائش بنا دیا ہے اور علاقہ قحط اور بیماریوں کی لپیٹ میں ہے۔
شیخ محمد کے بیانات اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ خطے میں کسی پائیدار امن کے لیے مکالمہ، شفافیت اور تمام فریقین کی رضامندی ناگزیر ہے۔