خیبرپختونخوا حکومت نے موبائل کمپنیوں کو کس طرح اربوں کا فائدہ دیا؟

خیبرپختونخوا حکومت نے موبائل کمپنیوں کو کس طرح اربوں کا فائدہ دیا؟

خیبرپختونخوا کے خالی خزانوں کو بھرنے کا جو موقع اربوں روپے کی آمدن دے سکتا تھا، وہ آخرکار موبائل کمپنیوں کیلئے کارپوریٹ فائدے میں بدل گیا۔ صوبائی حکومت نے ماحولیاتی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر ٹیلی کام کمپنیوں کو فری پاس دے دیا، جس سے بدانتظامی، اقربا پروری اور اربوں کے نقصان کے الزامات نے جنم لیا۔

قانونی تقاضے اور خلاف ورزی

قانون کے مطابق ہر موبائل فون ٹاور، جسے بیس ٹرانسیور اسٹیشن ( بی ٹی ایس ) کہا جاتا ہے، کی تعمیر اور آپریشن سے پہلے ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (ای پی اے) سے این او سی لینا لازمی ہے۔ لیکن صوبے میں 15 ہزار کے قریب ٹاورز بغیر کسی منظوری کے نصب کیے گئے ہیں، ماحولیاتی تحفظ ایکٹ 2014 کی شق 18 کے تحت این او سی کے بغیر 50 ہزار سے 7 کروڑ روپے فی ٹاور تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا تھا، مگر اس کے بجائے خیبرپختونخوا ماحولیاتی کونس نے، جس کی سربراہی وزیرِاعلیٰ کرتے ہیں، پالیسی منظور کی کہ موبائل کمپنیوں کو بغیر جرمانے کے این او سی جاری کیے جائیں۔

ذرائع کے مطابق صوبے میں اب تک تقریباً 15 ہزار ٹاورز نصب ہوچکے ہیں۔ 2014 میں قانون پاس ہونے کے باوجود موبائل ٹاورز کو باضابطہ طور پر ستمبر 2021 کے بعد ماحولیاتی قواعد کے دائرے میں لایا گیا۔ ان قواعد کے تحت منصوبوں کو ’’ہائی‘‘، ’’میڈیم‘‘ اور ’’لو‘‘ زمرے میں تقسیم کیا گیا، جہاں موبائل ٹاورز کو ’’جنرل انوائرنمنٹل اپروول‘‘ کے زمرے میں رکھا گیا جس کے تحت تعمیر اور آپریشن کیلئے پیشگی منظوری لازمی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: موبائل صارفین کیلئے بری خبر ، پی ٹی اے نے خبردار کردیا

جرمانوں کا مطالبہ اور حکومتی یوٹرن

ذرائع کے مطابق اُس وقت کے ڈی جی ای پی اے انور خان نے جرمانے کے نفاذ پر زور دیا لیکن نگران دور میں سمٰیع اللہ وزیر کو نیا ڈی جی ای پی اے تعینات کیا گیا۔ 30 جنوری 2024 کو ای پی اے کی ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ ہوا کہ قانون کے مطابق بغیر جرمانے کے این او سی جاری نہیں ہوسکتے۔ کمیٹی نے واضح کیا کہ قانون میں کسی قسم کی مالی چھوٹ کی اجازت نہیں۔

تاہم حکومت کی تبدیلی کے بعد صورتحال بدل گئی۔ مئی 2024 میں شاہد زمان کو سیکرٹری فارسٹ تعینات کیا گیا اور اگست میں ای پی اے نے سمری تیار کی کہ چونکہ بیشتر ٹاورز قانون آنے سے پہلے نصب ہوچکے تھے، اس لیے انہیں جرمانے سے استثنیٰ دیا جائے۔ یہ تجویز ابتدا میں مؤخر کی گئی مگر فروری 2025 میں ای پی اے کونسل نے بی ٹی ایس گائیڈلائنز منظور کرلیں، جس کے تحت تعمیراتی مرحلے پر تو این او سی بغیر جرمانے کے دیے گئے لیکن آپریشنل مرحلے پر جرمانوں سے استثنیٰ کا ذکر تک گائیڈ لائنز میں نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کو بڑا دھچکا، دو صوبائی وزرا مستعفیٰ

متنازعہ تبادلے اور این او سیز کی بھرمار

اسی دوران ای پی اے میں متنازعہ تبادلے بھی سامنے آئیں۔ اکتوبر 2024 میں افسر خان کو ڈائریکٹر ای پی اے سوات اور ممتاز علی کو ڈائریکٹر ڈی آئی خان کا اضافی چارج دیا گیا، جو قواعد کے منافی تھا کیونکہ دونوں کا کیڈر مختلف ہے اس کے علاوہ مذکورہ کیڈر کے کئی سینئر افسران کو نظر انداز کردیا گیا۔

ریٹائرمنٹ کے قریب محمد حنیف کو پہلے او ایس ڈی بنایا گیا اور پھر مارچ 2025 میں انہیں ہیڈ کوارٹرمیں ڈائریکٹر لگایا گیا اور پھر ان پر اچانک سے مزید مہرنیاں کرتے ہوئے ڈائریکٹر پشاور اور ایبٹ ریجن سے این او سیز جاری کرنے کا اختیار لیکر محمد حنیف کو دیدیا گیا ۔ 10 ستمبر 2025 تک ای پی اے نے 3,825 این او سیز جاری کئے گئے ہیں جس میں سے بیشترای پی اے کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ تک نہیں کی گئیں۔

قانونی تقاضے نظرانداز

دستاویزات کے مطابق نظرثانی کمیٹی میں ڈپٹی ڈائریکٹرز کو شامل نہیں کیا گیا، جبکہ قانون کے تحت ٹاورز کی سائٹ سلیکشن، رہائشی علاقوں، مساجد، سکولوں اور ہسپتالوں سے دوری، سائٹ انسپیکشن اور جی آئی ایس میپنگ لازمی تھی، مگر یہ سب مراحل مکمل طور پر نظرانداز کردیے گئے۔

اگر 7 کروڑ فی ٹاور کے حساب سے جرمانے نافذ ہوتے تو صرف 3,825 ٹاورز سے 267 ارب روپے تک کی آمدن ہوسکتی تھی۔ حتیٰ کہ فی ٹاور محض 10 لاکھ روپے کے حساب سے بھی 38 ارب روپے کا ریونیو صوبائی خزانے میں آتا۔ لیکن یہ موقع ضائع کردیا گیا اور عوامی مفاد کے بجائے ٹیلی کام کمپنیوں کو فائدہ پہنچایا گیا۔

سوالات ابھی باقی

سابق ڈی جی ای پی اے سمیع اللہ وزیر نے رابطہ کرنے پر وضاحت دی کہ جرمانے ختم نہیں کیے گئے، بلکہ زیادہ تر ٹاورز اس وقت لگائے گئے جب قانون موجود ہی نہیں تھا۔ ان کے مطابق این او سیز شرائط کے ساتھ دیے گئے ہے جوعدم تعمیل پر منسوخ ہوسکتے ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا تبادلہ ہوگیا ( جو 22 ستمبر 2025 کو ہوا) ورنہ وہ محکمہ قانون اور خزانہ سے اس بارے رہنمائی لیتے ۔
تاہم یہ سوال اب بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ ای پی اے نے مالیات اور قانون کے محکموں سے رائے لیے بغیر کونسل سے منظوری کیوں لی؟۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک ہزاروں این او سیز جاری ہوچکی ہیں اور مزید درخواستیں بھی زیرِ التوا ہیں، اس لیے یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *