وزیراعظم پاکستان نے آزاد کشمیر میں جاری کشیدگی اور عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاج کے تناظر میں صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اعلیٰ سطح پر مداخلت کرتے ہوئے معاملات کو فوری حل کرنے کی ہدایت کر دی ہے جس کا مقصد مسائل کا پرامن اور دیرپا حل تلاش کرنا ہے، تاہم اگر عوامی ایکشن کمیٹی نے اس کا مثبت جواب نہ دیا تو پھر اس کا ایجنڈا کچھ اور تصور کیا جائے گا۔
جمعرات کو حکومت کی جانب سے نامزد کردہ اس کمیٹی میں سینئر سیاسی رہنما سینیٹر رانا ثنا اللہ، وفاقی وزرا سردار یوسف، احسن اقبال، سابق صدر آزاد جموں کشمیر مسعود خان اور قمر زمان کائرہ شامل ہیں۔ وزیراعظم نے کمیٹی کو ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر مظفرآباد روانہ ہو کر مسئلے کے حل کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرے۔
وزیراعظم نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے اراکین اور قیادت سے درخواست کی ہے کہ وہ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ تعاون کریں تاکہ کشیدگی کو ختم کر کے مسائل کا پرامن حل نکالا جا سکے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کمیٹی کی سفارشات جلد از جلد وزیراعظم آفس کو بھیجی جائیں تاکہ حکومت فوری طور پر عملی اقدامات اٹھا کر کشمیری عوام کو ان کے جائز حقوق فراہم کر سکے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے وزیراعظم کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کیا تو یہ ظاہر ہو جائے گا کہ ان کی قیادت کا ایجنڈا کچھ اور ہے اور وہ مسئلے کو طول دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ تجزیہ کاروں نے حکومت کے اس قدم کو مثبت اور سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب صورتحال بہتر بنانے کی مکمل ذمہ داری احتجاج کی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔
وزیراعظم نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ مذاکراتی عمل کی ذاتی طور پر نگرانی کریں گے تاکہ جلد از جلد کشمیری عوام کو ریلیف پہنچایا جا سکے اور علاقے میں امن و استحکام قائم کیا جا سکے۔
یہ اقدامات ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں جب آزاد کشمیر میں احتجاج جاری ہے اور گزشتہ دنوں مظاہرین اور پولیس کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا۔ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے تاکہ علاقے میں مزید تشدد اور انتشار پیدا ہونے سے بچا جا سکے۔
اس موقع پر وزیراعظم نے امن کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل صرف اور صرف پرامن مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے اور حکومت ہر سطح پر کشمیری عوام کے جائز مطالبات کو پورا کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔