اسرائیلی جیلوں سے 1968 فلسطینی قیدی رہا، خطے میں خوشی کی لہر، جذباتی مناظر، تل ابیب میں سخت غصہ اور احتجاج

اسرائیلی جیلوں سے 1968 فلسطینی قیدی رہا، خطے میں خوشی کی لہر، جذباتی مناظر، تل ابیب میں سخت غصہ اور احتجاج

طویل انتظار کے بعد اسرائیلی جیلوں سے 1968 فلسطینی قیدی رہا کر دیے گئے ہیں، جن میں سے 250 قیدی عمر قید کاٹ رہے تھے۔ یہ تاریخی رہائی فلسطینی عوام کے لیے خوشی کا سماں بن گئی جبکہ اسرائیل میں اس پر سخت غصہ اور احتجاج بھی دیکھنے میں آیا ہے۔

فلسطینیوں کا جشن اور جذباتی لمحات

رہائی پانے والے فلسطینیوں کو ان کے گھروں کی جانب روانہ کر دیا گیا جہاں غزہ اور مغربی کنارے میں ہزاروں افراد نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ خاندانوں نے اپنے قیدی پیاروں کو گلے لگایا، آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہائے اور جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ کئی قیدی اپنے بچوں کو گود میں اٹھائے ہوئے تھے جبکہ دوسرے اپنے عزیزوں کے کندھوں پر سوار تھے۔

یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ نے غزہ جنگ کے خاتمے سے متعلق 21 نکاتی منصوبہ پیش کردیا

رہائی پانے والے ایک فلسطینی نے میڈیا کو بتایاکہ ’ہم سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور پھر غزہ کے لوگوں اور مزاحمت کے قدم چومتے ہیں جنہوں نے ہمیں عزت کے ساتھ رہائی دلوائی۔ جیل کے حالات بہت سخت تھے، ہمیں 4 دن پہلے اپنی کوٹھریوں سے نکالا گیا تھا اور اس دوران ہمیں مارا پیٹا گیا اور ذلیل کیا گیا‘۔

اسرائیل کی جانب سے قیدیوں کی تقسیم

اسرائیل نے رہائی پانے والے 154 فلسطینیوں کو مصر جلا وطن کر دیا ہے۔ غزہ کی سڑکوں پر ایک بار پھر القسام بریگیڈ کے جنگجو نظر آئے، جنہوں نے مزاحمتی قوت کی موجودگی کا مظاہرہ کیا۔

حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور لاشوں کی واپسی

فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے جنگ بندی معاہدے کے تحت 20 زندہ یرغمالیوں کو اسرائیل کے حوالے کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں، حماس نے 4 لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کیں جو بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے ذریعے منتقل کی گئیں۔ ان لاشوں میں گائے ایلوز، یوسی شارابی، بپن جوشی اور ڈینیئل پریز شامل ہیں۔ حماس کا کہنا ہے کہ باقی 24 لاشوں کو نکالنے میں وقت لگ سکتا ہے کیونکہ تدفین کے مقامات کا علم مکمل نہیں ہے۔

اسرائیل میں شدید غصہ اور احتجاج

اسرائیل میں قیدیوں کی رہائی کے بعد تل ابیب اور یروشلم میں شدید احتجاج پھوٹ پڑا۔ سیکڑوں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت سے سوال کیا کہ ’یہ سب اتنی دیر سے کیوں ہوا؟ اگر یہ معاہدہ پہلے ہو جاتا تو کئی قیدی زندہ رہ سکتے تھے اور ہزاروں فلسطینیوں کی جانیں بچائی جا سکتی تھیں‘۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا، مصر، قطر اور ترکیہ کے سربراہان نے غزہ امن معاہدے پر دستخط کردیے

مظاہرین نے وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف نعرے بازی کی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچیوں، اسٹیو وٹکوف اور جیرڈ کشنر کو بھی عوامی ناراضی کا سامنا کرنا پڑا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت نے سیاسی مفادات کی بنا پر معاہدے میں تاخیر کی جس کے نتیجے میں قیدیوں کی موت اور خطے میں تشدد میں اضافہ ہوا۔

یہ رہائی فلسطینیوں کے لیے ایک بڑی فتح سمجھی جا رہی ہے جبکہ اسرائیل میں اس کا سیاسی بحران اور عوامی غصہ بھی عیاں ہے۔ خطے میں امن و امان کی صورتحال پر اس واقعے کے اثرات آنے والے دنوں میں مزید واضح ہوں گے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *