شمالی بحرِ اوقیانوس معاہدہ تنظیم (نیٹو) کے اہم رکن ملک ترکیہ نے اپنی فضائی دفاعی صلاحیت کو مضبوط بنانے کے لیے برطانیہ کے ساتھ ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت ترکیہ نے 20 عدد جدید ’یورو فائٹر ٹائیفون‘ جنگی طیارے خریدنے کا فیصلہ کیا ہے، جسے دونوں ممالک نے مشترکہ طور پر اسٹریٹجک تعلقات کی نئی علامت قرار دیا ہے۔
اس معاہدے کی مالیت تقریباً 8 ارب پاؤنڈ یعنی تقریباً 11 ارب امریکی ڈالر بتائی جا رہی ہے۔ رسمی دستخط کی تقریب انقرہ میں منعقد ہوئی، جس میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان اور برطانوی وزیرِاعظم سر کیئر اسٹارمر نے شرکت کی۔ معاہدے کے تحت طیارے 2030میں ترکیہ پہنچیں گے۔ترکیہ اور برطانیہ
ترکیہ کی وزارتِ دفاع کے مطابق وہ قطر اور عمان سے بھی 12، 12 ٹائیفون طیارے خریدنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اپنے فضائی بیڑہ کو مزید وسعت دے سکے۔
ترکیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کا مجموعی ہدف 120 جنگی طیاروں پر مشتمل فضائی بیڑہ تشکیل دینا ہے، جس میں یہ معاہدے بنیادی کردار ادا کریں گے۔
معاہدے کا پس منظر
ترکیہ نے اس معاہدے کو اپنے دفاعی بیڑے کی تجدیدی منصوبہ بندی کا حصہ قرار دیا ہے، جس کے تحت وہ اپنے پرانے ایف-16 طیاروں کے ساتھ ساتھ ملکی ساختہ پانچویں نسل کے جنگی طیارے ’قاآن‘کے متعارف ہونے تک ایک عبوری حل تیار کرنا چاہتا ہے۔
برطانوی حکومت کے مطابق یہ معاہدہ نہ صرف دفاعی صنعت کے لیے بڑی کامیابی ہے بلکہ اس سے برطانیہ میں لگ بھگ 20 ہزار ملازمتوں کے تحفظ کا بھی امکان ہے۔
علاقائی توازن اور حکمتِ عملی
ترکیہ کی وزارتِ دفاع کے بیان کے مطابق یہ اقدام خطے میں اس کے حریف ممالک، خصوصاً اسرائیل، کے مقابلے میں اپنی فضائی برتری برقرار رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
یہ معاہدہ اس امر کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ ترکیہ اور برطانیہ دفاعی سطح پر اپنی شراکت داری کو گہرا کرنا چاہتے ہیں، خاص طور پر نیٹو کے جنوب مشرقی محاذ پر۔
ممکنہ چیلنجز
ماہرین کے مطابق معاہدے کی قیمت غیر معمولی ہے، خاص طور پر جب اس میں طیاروں کی تربیت، پرزوں کی فراہمی اور آپریشنل سپورٹ شامل ہے۔
بعض یورپی ممالک، بالخصوص جرمنی، ماضی میں ترکیہ کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی پر سیاسی وجوہات کے باعث اعتراضات اٹھا چکے ہیں۔
یہ معاہدہ ترکیہ کی فضائی قوت کو ایک نئے دور میں داخل کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ ساتھ ہی یہ برطانیہ کے لیے دفاعی صنعت کی ایک بڑی برآمدی کامیابی بھی ہے۔ دونوں ممالک نے اسے اپنے باہمی اسٹریٹجک تعلقات کی علامت قرار دیا ہے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی کامیابی کا دار و مدار اس بات پر ہوگا کہ یہ طیارے وقت پر فراہم کیے جائیں اور معاہدے کے مالی و عسکری پہلوؤں میں شفافیت برقرار رکھی جائے۔